دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم میں بے حسی کیسے پیدا ہوتی ہے؟۔۔۔ گلزار احمد

آخرکار پنجرے میں اب وہ پانچ بندر تھے جنہیں کیلا حاصل کرنے کی سزا کے طور پر برفیلے ٹھنڈے پانی کا تجربہ نہیں تھا

مثال نمبر ایک ۔۔

ایک دفعہ امریکہ کے سائنسدانوں نے ایک شارک مچھلی کو شیشے کے بڑے کنٹینر میں بند کر دیا اور چھوٹی مچھلیاں اندر چھوڑ دیں جن کو شارک فوراً کھا گئی۔ پھر کنٹینر کے درمیان شیشے کی دیوار لگا دی گئی اور مچھلیاں ایک طرف چھوڑ دی گئیں۔ شارک بار بار ان پر حملہ کرتی اور دیوار سے ٹکرا کے ناکام ھو جاتی۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد شارک نے حملے بند کر دئیے۔اگلے دن پھر اسی طرف مچھلیاں چھوڑی گئیں ۔

شارک ان پر جھپٹی مگر دیوار کی وجہ سے جلد حملے بند کر دئیے۔مسلسل کئی روز ایسا کرنے سے ایک دن شارک نے بالکل حملہ نہ کیا۔اب سائنسدانوں نے مچھلیاں چھوڑ کر دیوار ہٹا دی اور حیران کن بات کہ مچھلیاں شارک کے قریب تیرتی رہیں مگر بار بار ناکامی سے شارک کے شعور میں اب یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ چھوٹی مچھلیاں اس کی دسترس میں نہیں۔۔۔

مثال نمبر دو۔۔۔

ایک دفعہ پانچ بندروں کو پنجرے میں اکٹھے بند کردیا گیا۔ بندروں کی پہنچ سے دور چھت پر ایک کیلا رکھا گیا جس کے ساتھ ایک سیڑھی لٹکا دی گئی۔ جونہی اُن پانچوں بندروں میں سے کوئی بھی ایک سیڑھی چڑھ کر کیلا حاصل کرنے کی کوشش کرتا، اُس سمیت باقی چاروں بندروں پر بھی برفیلا ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا۔ کچھ دنوں بعد اُن پانچوں بندروں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی کیلا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو باقی سب پر بھی برفیلا ٹھنڈا پانی ڈالا جائے گا۔

صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ٹھنڈا پانی پھینکنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کیونکہ اب کوئی بھی بندر کیلا حاصل کرنے کے لئے سیڑھی نہ چڑھتا۔ اب اُن پانچ بندروں میں سے ایک بندر کی جگہ نیا بندر تبدیل کردیا گیا۔ نئے بندر کو برفیلے ٹھنڈے پانی کا تجربہ نہیں تھا اس لئے اُس نے کیلا حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُسی لمحے برفیلے ٹھنڈے پانی سے خوف زدہ پرانے چاروں بندروں نے نئے بندر کو کیلا حاصل کرنے سے روکنے کے لئے اُس کی پٹائی شروع کردی۔

یہاں تک کہ نئے بندر نے بھی مار کے ڈر سے کیلا حاصل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ ایک ایک کرکے پرانے پانچوں بندر نئے بندروں سے تبدیل کردیئے گئے۔ جب بھی نیا بندر کیلا حاصل کرنے کی کوشش کرتا، باقی بندر مل کر اُ سے مارتے یہاں تک کہ وہ اس حرکت سے باز آجاتا۔

آخرکار پنجرے میں اب وہ پانچ بندر تھے جنہیں کیلا حاصل کرنے کی سزا کے طور پر برفیلے ٹھنڈے پانی کا تجربہ نہیں تھا لیکن اُن میں سے کوئی بھی پٹائی کے خوف سے کیلا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ گویا اُن پانچوں بندروں نے یہ سبق یاد کرلیا کہ انہیں کیلا حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ اُن بندروں میں سے یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اصل معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور کیلا حاصل کرنے کی خواہش پر اُس کے باقی ساتھی اُ سے کیوں مارتے ہیں۔

مثال نمبر تین۔۔

ہاتھی کے بچے کو بھی اس طرح سدھایا جاتا ھے۔چھوٹی سی عمر میں اس کے پاوں میں زنجیر ڈال کر باندہ دیا جاتا ھے وہ بار بار زنجیر توڑنے اور بھاگنے کی کوشش کرتا رہتا ھے اور پھر تھک ہار کر کھڑا ہو جاتا ھے۔ پھر جب بڑا ہوتا ھے تو زنجیر کھول دی جاتی ھے مگر اب وہ دوڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔

پاکستانی قوم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ہم اپنے رہنماوں کے پیچھے نعرے مارتے رھے اور دوڑتے رھے ۔کسی نے روٹی کپڑا مکان کا جھانسہ دیا ۔کسی نے اسلام نافذ کرنے کی نوید سنائی۔کسی نے ہمیں اکنامک ٹائیگر بنانے کا وعدہ کیا۔ کسی نے انصاف گھر گھر پہچانے کانعرہ لگایا۔ بلدیاتی نظام کا بڑا شور مچا۔ آخر میں کچھ بھی نہیں ھوا۔تعلیم۔معیشت۔روزگار۔انصاف۔امن سب تباہ ھو گیا۔۔۔

آج قتل ہو جاۓ شھری تھانے کچہری جانے سے ڈرتا ھے کہ انصاف تو ملنا نہیں مگر الٹا پولیس اور وکیلوں کو گھر بیچ کر رقم دینی پڑے گی۔ یہ بھی ذھن میں ھوتا ھے کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو گئے ان کو اب تک انصاف نہیں ملا تو ہمیں کیا ملے گا۔ ہمارے شھری کو آج یقین نہیں آتا کہ اس کا کام رشوت سفارش کے بغیر ھو گا۔۔

آج ہم بلیک مارکیٹنگ۔ملاوٹ۔مہنگائی ۔بے انصافی۔ظلم۔تشدد۔رسہ گیری۔بھتہ خوری کے عادی ھو گئے کہ شاید قسمت میں یہی لکھا ھے۔ لے دے کے جب کوئی ظلم کا شکار ھوتا ھے تو وہ آرمی چیف یا چیف جسٹس سپریم کورٹ کو انصاف کی دھائی دیتا ھے جن لوگوں کو منتخب کیا اس سے کوئی امید نہیں رکھتا کوئی آواز نہیں دیتا۔ ظاہر ھے وہاں سے انصاف ملنے کی امید دم توڑ چکی ھے۔۔۔آخبارات۔ٹیلیویژن۔جلسے ۔جلوس ۔احتجاج سے عوام لا تعلق رھتے ہیں کیونکہ ان سب اداروں کے اپنے مفادات و مقاصد ہیں اس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔ ایک مارشل قوم جو اسلام کا جھنڈا لے کر پوری دنیا پر چھا گئی تھی وہ بے بسی کی تصویر بنے IMF ۔عرب ممالک۔۔چین۔امریکہ۔یورپ۔ کی امداد کی منتظر ھے ۔۔۔؎
کہاں گئیں وہ پیار کی قسمیں ۔۔پیار کا وعدہ کیا ھوا؟

About The Author