کوئی بھی حکومت جب عنانِ اقتدار سنبھالتی ہے تو سابق حکومتوں پر تبریٰ بھیجتے ہوئے ملکی معیشت کی زبوں حالی اور عوام کو درپیش مسائل کا ذمہ دار انہیں قرار دیتی ہے۔
وطن عزیز میں یہ روش کسی نہ کسی طور روز اول سے ہی جاری ہے تاہم موجودہ حکومت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ سترہ ماہ گزر جانے اور دوسرا بجٹ پیش کرنے میں کم وقت رہ جانے کے باوجود اس کی تان اب بھی سابق حکومتوں کی کارگزاری پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے۔
ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہو جائے تو اس پر بھی قصور وار سابق حکومتیں ہی ٹھہرائی جاتی ہیں۔ ہر حکومت نےملک کی اقتصادی صورتحال میں ابتری کا آسان حل قرضے لے کر امور مملکت چلانے کی صورت میں نکالا گیا ہے اور عوام کو آسان زبان میں بھاشن دیا جاتا ہے کہ جب آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں گے تو قرض لے کر معیشت کا پہیہ چلانے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
مجھے یاد ہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں جب ایشیائی ترقیاتی بینک یا آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کی منظوری دیتا تھا تو وزیر خزانہ اسے قوم کے لئے خوشخبری قرار دیا کرتے تھے اور اس زبردست کارکردگی پر وزیر اعظم انہیں خراجِ تحسین پیش کیا کرتے تھے۔
یہ وہی مسلم لیگ (ن) تھی جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس کی طرف سے قرضہ لینے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھی پھر اسی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور قتدار میں مجموعی قرضے میں 12ہزار 772ارب روپے کا اضافہ کیا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی ملک کے مجموعی قرضوں کو تقریباً 7ہزار ارب روپے سے 16ہزار 228ارب روپے تک پہنچایا گیا لیکن 9ہزار ارب روپے سے زیادہ کا قرض لینے کے باوجود جب پیپلز پارٹی حکومت سے رخصت ہو رہی تھی تو آئی ایم ایف نے اس کی پالیسیوں سے اختلافات کے سبب ساڑھے تین ارب ڈالر کی آخری قسط جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جبکہ ملکی خزانے میں صرف ایک ماہ کی درآمدات کے مساوی رقم موجود تھی۔ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایک سانس میں ملکی مسائل کی وجہ ماضی میں لئےگئے بے تحاشا قرضوں کو قرار دیتی ہے تو دوسری سانس میں خطیر قرضے لے کر ملکی تاریخ کے قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے قومی اسمبلی میں پیش کردی اعدادو شمار کے مطابق حکومت نے پہلے پندرہ ماہ میں پاکستان کے ذمہ قرضوں اور واجبات کو 29ہزار 879ارب روپے سے بڑھا کر 41ہزار 489ارب روپے تک پہنچا دیا ہے، اس طرح موجودہ حکومت نے صرف ڈیڑھ سال کی مدت میں ملکی تاریخ کا ریکارڈ 11ہزار 6سو ارب روپے قرضہ لیا ہے جو گزشتہ 71سال میں لئےگئے مجموعی قرض کا تقریباً 39فیصد بنتا ہے۔
موجودہ مالی خسارے کو دیکھتے ہوئے جو کہ جی ڈی پی کا ریکارڈ 9فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے حکومت کے قرض لینے کے اس رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی بلکہ حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ اسی مالی خسارے کی وجہ سے جولائی 2020تک مزید 1ہزار 900ارب روپے کا قرضہ لے گی جس میں 1100 ارب روپے کا بیرونی اور 800ارب روپے کا اندرونی قرضہ شامل ہے۔
اس کا دعوی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار کی تکمیل تک 12ہزار 261ارب روپے ملکی اور 28ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی قرضہ واپس ادا کرے گی۔
حکومت نے صرف پہلے مالی سال میں کل قرضوں میں 10ہزار 330ارب روپے کا اضافہ کیا تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ حکومت کے ذمہ سرکاری قرضے میں 7ہزار 750ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ 3ہزار 440ارب روپے مالی خسارے میں سرمایہ کاری کرنے، 3ہزار 30ارب روپے کی قدر میں کمی ہونے اور 1ہزار 280ارب روپے حکومتی کیش بیلنس میں اضافے کی وجہ سے بڑھے ہیں یوں حکومت نے پہلے مالی سال کے دوران عملی طور پہ 3ہزار 440ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔
حکومت نے پہلے مالی سال کے دوران سود سمیت تقریباً 3ہزار 65ارب روپے کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران بھی اسے قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کے لئے ساڑھے 3ہزار ارب روپے درکار ہیں۔ صرف ایک سال میں ساڑھے 11ہزار ارب روپے قرضہ لینے کے باوجود ملک میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبے کا اجرابھی نظر نہیں آتا۔
سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ جمہوریت کی دعویدار تمام سیاسی حکومتوں نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ فزیکل رسپانسیبیلٹی اینڈ ڈیبٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے ،اس کے تحت کوئی بھی حکومت جی ڈی پی کے 60فیصد سے زائد قرض نہیں لے سکتی لیکن (ن) لیگ نے جب اقتدار چھوڑا تو مجموعی قرضہ جی ڈی پی کا 72اعشاریہ ایک فیصد تھا جو موجودہ دور حکومت میں 84اعشاریہ آٹھ فیصد پر پہنچ چکا ہے۔
افسوناک صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کو سرکاری جائیدادوں کو عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ کر قرض لینے کے طعنے دینے والی تحریک انصاف کی حکومت نے سکوک بانڈ جاری کرنے کیلئے موٹرویز کو استعمال کیا ہے، اس ضمن میں پشاور اسلام آباد موٹر وے کو 71ارب روپے اور اسلام آباد لاہور موٹر وے کو 2ارب ڈالر کے عوض سکوک بانڈ کی مد میں دیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں جب وزیراعظم یہ کہیں کہ انہیں عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا ادراک ہے اور چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کی کم نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائیں گے تو بےاختیار مرزا غالب کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر