باوجود تمام تر دشمنیوں اور مخالفتوں کے پاکستان اور انڈیا کے معاشی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بند ہونے سے دونوں طرف کی عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔
خاص طور پاکستانی عوام کو ملک کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے زیادہ تنگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
سبزیوں کی انڈیا سے بندش کے نتیجے میں قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان ہر سال تقریباً تیس سے چالیس لاکھ کاٹن بیلز انڈیا سے کئی سالوں سے خرید کرتا آ رہا ہے ۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اس سال انڈیا سے ایک بیل کی خریداری بھی نہ کی جا سکی ہے امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی ٹیرف کے مسئلے کے حل سے پہلے چین امریکہ کی بجائے انڈیا سے کپاس خرید کر رہا تھا لیکن کرونا وائرس اور چین کے امریکہ کے ساتھ ٹیرف کے حوالے سے معاملات طئے ہو جانے کے بعد خریداری کا یہ عمل رک گیا ہے ۔
اب انڈیا کو اپنی سرپلس کاٹن کے لئے خریدار نہیں مل رہا دوسری طرف پاکستان جسے اس سال کپاس کی کم پیداور ہونے کی وجہ سے تقریباً ساٹھ سے ستر لاکھ بیلز اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے ملکوں سے خرید کرنی پڑے گی مہنگے داموں امریکہ سے کپاس خرید کر رہا ہے ۔
امریکہ سے کپاس کی پاکستان آمد کے اخراجات انڈیا سے کپاس منگوانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اور یہ اضافی بوجھ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
انڈیا کے کاٹن مرچنٹ پاکستان رابطہ کر کے پاکستانی مل والوں کو امریکہ کے مقابلے میں کم قیمت پر دوبئی یا پھر ایرانی پورٹ بندر عباس اور چاہ بہار کے زریعے کپاس فراہم کرنے کی پیشکشیں کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹیرف کا مسئلہ حل ہو جانے کے بعد اب ان کی پریشانی میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
دونوں ممالک کے لئے یہ بات لمحہ فکریہ ہے حالات کو جس قدر جلدی نارمل کر لیں دونوں ملکوں اور ان کی عوام کے حق میں بہتر ہے ورنہ نقصان میں اضافہ ہوتا جائے گا اور جس ملک کی معیشت زیادہ کمزور ہو گی اس کی کمر زیادہ تیزی سے جھکتی چلی جائے گی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر