نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جتنی مہنگائی اب ہوئی تاریخ میں مثال نہیں ،بلاول بھٹو زرداری

پندرہ ماہ میں پہلی بار مشیر خزانہ پارلیمنٹ میں آئے ہم نے مہنگائی کی بات کی تو ہمیں گالیاں دی گئیں

چیئر مین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جائے ، مذاکرات کرے اور مان لے کہ ہم نالائق تھے، نااہل تھے ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ

حکومت حقائق پر بات نہیں کرتی۔ ہم جانتے ہیں کہ نالائق حکومت اچھے مذاکرات نہیں کر سکتی۔ پندرہ ماہ میں پہلی بار مشیر خزانہ پارلیمنٹ میں آئے ہم نے مہنگائی کی بات کی تو ہمیں گالیاں دی گئیں۔

حکومتی اعدادوشمار خود بتاتے ہیںکہ جتنی مہنگائی ان کے دور میں ہوئی اتنی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاﺅس کے احاطے میں واقع میڈیا کارنر پر پریس ٹاک کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم نے بڑی مشکل سے ملک کی معاشی اور مہنگائی کی صورتحال کو پالیمنٹ کے ایجنڈا میں شامل کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں ہمیں اس پر بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم اس صورتحال پر اچھے فیصلے لیں گے تاکہ ہم ملک کے غریب عوام کو اس مہنگائی سے بچا سکیں۔ ہمارے کسانوں کو اور ہمارے مزدوروں کو کوئی ریلیف پہنچا سکیں۔ ہمارے عوام جو بیروزگار ہو رہے ہیں

ان کو ریلیف پہنچا سکیں مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ حکومت مسائل پر بات نہیں کرتی حقیقت پر بات نہیں اور آج کے مسائل پر بات نہیں کرتی۔ یہ حکومت صرف گالم گلوچ کی عادی ہے یہ حکومت صرف ماضی کی بات کرتی ہے۔

کل ہم نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں ہم نے اپنے متعلق بات نہیں کی بلکہ فیکٹس اور فگرز پر بات کی اور یہ فیکٹس اور فیگرز شماریات سے، اسٹیٹ بنک سے اور ایف بار کے تھے جو ہم نے حکومت کے سامنے رکھے تھے

کیہ یہ آپ کے ادارے کہہ رہے ہیں۔ آپ کا شماریات کا ادارہ کہہ رہا ہے کہ تاریخ طور پر مہنگائی بڑھی ہے۔ جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے پاکستان کی تاریخ میں ایسا اضافہ کبھی نہیں ہوا۔ ہم یہ سوال کررہے ہیں کہ آپ نے کتنا قرض لیا ہے۔

آپ کی اسٹیٹ بینک کہہ رہی ہے کہ جتنا قرضہ 15 ماہ میں لیا گیا ہے ماضی میں اتنا قرضہ کسی حکومت نے نہیں لیا۔ آپ کا اپنا ایف بی آر کہہ رہا کہہ رہا ہے کہ ایک سال میں ٹیکس میں 400 ارب کا شاٹ فال ہے آپ کا اس پر کیا جواب ہے۔

جواب میں ہمیں ملا کہ گالم گلوچ، زرداری کا بیٹاجواب میں ہمیں ملا کہ ایشوز کی بات نہیں کرتے ذاتیات پر آجاتے ہیں یہ ہم تو برداشت کرسکتے ہیں مگر اس وقت غریب عوام ان کی معاشی پالیسیاں برداشت نہیں کرسکتے۔ اس وقت ملک کے غریب عوام جس طبقے سے تعلق ہے

وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ چاہے مزدور ہوں کسان ہوں، ہر طبقے کے لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کھانے پینے کی چیزیں اور فوڈ میں مہنگائی 78 فیصد بڑھے گی تو عوام پریشان ہوں گے

جب عوام کا معاشی قتل ہورہا ہو تو اس کا جواب حکومت کو دینا پڑتا ہے۔ اگر دیہاتی علاقوں میں فوڈ میں مہنگائی 91فیصد ہوگی تو یہ سب ہمارے دیہات کے لوگوں کا معاشی قتل ہوگا۔ وہ آئیٹم جو جلد خراب ہو جاتے ہیں

ایک سال میں 91فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ عوام جینا چاہتے ہیں۔ عوام اپنے بچوں کو سنبھالنا چاتے ہیں۔ عوام اپنے خاندان کو کھلانا چاہتے ہیں۔ عوام اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتے ہیں۔ جب ہم اپنے حلقے میں جاتے ہیں

تو ہمیں کیا نظر آتا ہے عوام ہم سے کیا پوچھتے ہیں؟ ہر دن ہر دن آپ ہی کے چینلز پر کوئی نہ کوئی بہت افسوسناک سٹوری آتی ہے، کوئی خود کشی کرتا ہے میں آپ کو بتاﺅں کے کراچی سے ایک والد نے خودکشی کردی کہ وہ اپنے بچے کے لئے گرمیوں کے کپڑے نہیں خرید سکتا تھا۔

آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں آپ ہر دن اس قسم کی کہانیاں ہمیں سناتے ہیں اور آپ کو خود پتہ ہے کہ آپ لوگوں کی کب سے تنخواہیں بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے کتنا مشکل ہوگیا ہے آپ کا اپنا گھر چلانا۔

ہم جب یہ سوال اٹھاتے ہیں تو پھر گالم گلوچ آجاتی ہیں ان لوگوں کی طرف سے۔ عمران خان نے خود مجھ کو چھوٹا آدمی کہا۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان نے مودی کو کہا کہ یہ چھوٹا آدمی ہے بڑے آفس میں۔ میں نے اسی کے الفاظ دہرائے اور اس نے پوری بات کو اسپیکر سمیت پوری حکومت کے بنچوں نے میرے ہر ایک لفظ کو پکڑنا شروع کر دیا عوام کیا کیا ہوگا؟

غریب عوام کا کیا ہوگا؟ ان کے سوالوں کے جواب کون دے گا؟ جو ٹی وی کی طرف دیکھ رہے تھے ہمارے وزیر کھڑے ہوں گے ہمارے جو تبدیلی کے وزیر ہیں وہ کھڑے ہوں گے وہ اعلان کریں گے آپ کے لئے ریلیف پیکج کا وہ اعلان کریں گے

کہ ہم اس مہنگائی سے کیسے بچیں گے وہ نہیں ہوا۔ آپ سب میرے گواہ ہو جب سے میں اس پارلیمان میں آیا ہوں پانچ منی بجٹ پیش کئے گئے میں ہر منی بجٹ میں کھڑا ہو کر آئی ایم ایف ڈیل ہمیں منظور نہیں یہ پاکستان کے صحیح نہیں ہے پاکستان کے شہریوں کے فائدہ مند نہیں ہے

یہ پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل ہے، یہ عوام کا معاشی قتل ہے۔ یہ ہم نہیں مانتے تب ہماری بات نہیں مان رہے تھے اب ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ مطالبہ ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان میں ہر آدمی کا مطالبہ ہے پھاڑ دو اپنا پی ٹی آئی ایم ایف کی ڈیل۔

پھاڑ دو اپنا پی ٹی آئی ایم ایف کو۔ پھاڑ کے پھینک دیں اس پی ٹی آئی ایف کو۔ بلاول بھٹو زرداری کے کہا کہ واپس جائے آئی ایم ایف کے سامنے دوبارہ ڈائیلاگ کرو تاکہ پاکستان کے مفاد میں ہم ڈیل لے کر آئیں۔ دوبارہ ڈائیلاگ کریں اور غریب عوام کے فائدے میں ڈائیلاگ کریں ۔ یا آپ مان لیں کہ ہم نالائق ہیں نااہل ہیں ہم سیاست نہیں چلا سکتے۔ نالائق ہیں نااہل ہیں حکومت نہیں چلا سکتے، نالائق ہیں نااہل ہیں معیشت نہیں چلا سکتے اوار نالائق ہیں نااہل ہیں ہم مذاکرات نہیں کر سکتے۔

آپنے پاکستان کے حقوق کی سودے بازی کی۔ آپ نے پاکستان کی خودمختاری کی سودے بازی کی اور ہمارے سامنے پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل لے کر آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ پندرہ مہینے گزرنے کے بعد ہر پاکستانی کو پتہ ہے کہ آپ نے ان کے معاشی حقوق پر سودے بازی کی ہے آپ نے ان کے حقوق کا سمجھوتہ کیا ہے۔

ہمارے لئے پورے پاکستان کے لئے یہ پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل ہمیں منظور نہیں ہے۔ میں آپ کے سامنے پھر دہرا رہا ہوں وہ کل والا تقریر سنیں جو سنسر ہوئی تھی میں نے اپنا مطالبہ پارلیمان کے سامنے رکھا تھا، پارلیمان کے فلور پر رکھا تھا کہ

یہ جو پی ٹی آی ایم ایف ڈیل ، جو پارلیمنٹ کے سامنے نہیں لایا گیا جو کہ قانون کے مطابق آپ کا ڈیتھ سیل ہے اس کے قریب نہیں جا سکتے وہ ڈیل لے کر آئے جس میں آپ نے ہماری عوام کے معاشی حقوق کا خیال نہیں رکھا ہم نہیں مانتے اور آپ کو یہ ڈائیلاگ دوبارہ کرنے پڑیں گے۔

چیئرمین پی پی پی نے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ میں وہ سیاستدان ہوں جو ہمیشہ جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور اس چیز کو سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اگر جانا ہے تو نئے الیکشن کرانا پڑیں گے اور کوئی دوسرانظام ہمیں قبول نہیں ہوگا۔

جو نظام شہید ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام وزیراعظم نے اس ملک کے لئے سوچا تھا اس کو ہم نے چلانا ہے اس کو انہوں نے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ جو نظام اس ملک کے غریب عوام کو طاقت دیتا ہے وہ جو نظام ہر صوبے کو طاقت دیتا ہے یہ اس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے آپ معاشی حقوق پر حملہ کر رہے آپ کے آئینی اور جمہوری حق پر بھی حملہ کر رہے ہیں ہم اسے بالکل نہیں مانتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج ہم بہت خوش سے کہ ہمارے ہی مطالبے کے بجٹ پر بحث ہونا تھی پہلی بار جو ہمارا ملک کا وزیر فنانس ہے پارلیمان میں آیا پارلیمنٹ میں لمبی چوڑی تقریر بھی کی تو اس کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں

اور امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور پارلیمنٹ کا حق ہے جو وہ اپنے وزیر سے سوالات پوچھیں جہاں تک آئی ایم ایف کی بات ہے الحمد للہ یہی حفیظ شیخ صاحب ہمارے دور میں وزیر تھا جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے

لیکن اس کو پتہ تھا کہ اس کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا ہم آئی آیم ایف کے حکم کو نہیں مانتے تھے ہم پاکستان کے عوام کی بات مانتے تھے۔ ائی ایم ایف آتا تھا اور ہمیں کہتا تھا کہ بجلی کی قیمت بڑھا دو ہم کہتے تھے نہیں ہم اپنے عوام کے معاشی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

اس طریقے سے حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ سیاسی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی نمائندگی کریں، عوام کے لئے جدوجہد کریں۔ اگر آپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکراتے کرنے ہیں ہم مانتے ہیں آپ کریں پر جب کرتے ہو تو اپنے ملک کی معاشی خودمختاری پر تو سودے بازی نہ کریں،

اپنے عوام کے معاشی حقوق کو تحفظ دلا دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طریقے سے نالائق ٹیم نے جو مذاکرات کئے وہ غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ واپس نہ جاﺅ ہم کہہ رہے ہیں جو آپ کی پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل ہے اس پر ہمارا اعتراز ہے

اس پر اس ملک کے عوام کا اعتراز ہے۔ آپ نے غلط طریقے سے اس کو غلط طریقے سے مذاکرات کیے۔ جو معاشی حقیقت ہے وہ سامنے نہیں رکھی۔ آپ نے پاکستان کی معیشت جس طرح چلتی ہے وہ سامنے نہیں رکھی ۔ آپ ان بنیادوں پر دوبارہ مذاکرات کریں

اس لیے جس طریقے معیشت چل رہی ہے جس طریقے سے آپ آئی ایم ایف پروگرام نافذ کررہے ہو یہ ہماری معیشت سے جان نکال لے گی۔ اس میں سے کوئی مثبت نتائج تو نہیں آئے اس پورے پروگرام کی وجہ سے ۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو بڑھانے کا فائدہ کیا

وہ کیوں کر کر رہے ہیں صرف اسی لئے کہ وہ آئی ایم ایف کو پیسہ واپس کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کم کرنے کے لئے نہ آپ کی جیب میں پیسہ آئے گا نہ پیٹ میں کھانا آئے گا حکومت کا معیشت کا پورا کا پورا فوکس اس بات پر ہے کہ

پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل پیسہ واپس کر دینا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت کو چلنا ہے حکومت کو چلنا ہے تو پوراکا پورا فوکس پاکستان کے عوام پر ہونا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت صرف معیشت اسی لئے نہیں ہے کہ

ہمیں صرف آئی ایم ایف کو پورے کے پورے پیسے واپس کریں۔ ہمارا فنانس منسٹر منتخب نمائندہ نہیں ہے پورے ملک کے سامنے جس طرح ہمارے فنانس کے وزیر نے کہا کہ بلیو بھرن کہہ رہا ہے ہمارا اسٹاک مارکیٹ اتنا اچھا نہیں ہے

اور آئی ایم ایف کہہ رہا ہے آپ بڑے اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں آئی ایم ایف کو کہیں کہ لاہور کے عوام کیا کہہ رہا ہے پاکستان کا عوام کیا کہہ رہا ہے گوجرانوالہ کے عوام کیا کہہ رہے ہیں فاٹا کے عوام کیا کہہ رہے ہیں سندھ کے اور بلوچستان کے عوام کیا کہہ رہے ہیں۔

ہم پاکستان کے عوام کے نمائندے کہہ رہے ہیں میں آپ توسط سے حفیظ شیخ کو کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کے عوام خوش نہیں ہیں۔ کراچی کے عوام سے پوچھیں کہ پاکستان کی جو سٹاک مارکیٹ ہے وہ اس وقت دنیا کی سب سے بہترین سٹاک مارکیٹ ہے۔

کسی چھوٹے دکاندار سے پوچھیں کسی چھوٹے تاجر سے پوچھیں کہ کیا پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے؟ پاکستانی عوام مودی کی رپورٹ اور آئی ایم ایف کی رپورٹ کھا سکتے ہیں۔ اس حکومت نے پاکستان کو پاکستانی عوام کو بہت مشکل جگہ پر لے کر آئیں ہیں

جہاں سے واپس جانے کے لئے بہت مشکل راستہ ہمیں طے کرنا پڑے گا۔ جتنا جلدی یہ حکومت مان لے یہ غلط ہے اور یہ غلط ہیں۔ آج اس پی ٹی آئی ایم ایف کی ڈیل کو پھاڑ دیں ان کو کہیں ہم غلط تھے ہم نالائق تھے ہم سلیکٹڈ تھے

ہمیں تو عوام کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ پندرہ مہینے بعد ہمیں یہ ہوش آیا ہے کہ ہم آپ کے لئے اتنا ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک دوسرے سوال کے جواب میں کہا کہ

اس صورتحال میں پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف یہی ہے کہ ہم کسی طرح مہنگائی میں غربت میں کمی لے کر آئیں۔ جتنا جلدی ہم عوام کو ریلیف پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

About The Author