میں سارا دن داستانوں میں لاڑکانہ اور لاڑکانہ میں داستانیں تلاش کرتا رہا مگر مجھے وہ سب نہیں ملا جو میں ڈھونڈنے آیا تھا۔ لاڑکانہ کا سیاسی و غیرسیاسی موسم بالکل لاہور سا لگا، رُت کے سارے رنگ اور خوشبو بھی ویسی ہی۔ رعنائی اور خوشنمائی پر کسی کا قبضہ نہیں، سڑکیں بھی سیدھی اور پکی۔ شہر میں داخل ہوتے ہی ایک چوک کے وسط میں برج پر پی ٹی آئی کے دو پوسٹر آب و تاب کے ساتھ چمکتے ملے، تھوڑا پہلے بائیں جانب ایک سیاسی و سماجی دفتر کی پیشانی پر دیگر عمائدین کے سنگ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ کی تصویر بھی نمایاں تھی، جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو یونیورسٹی کی طرف گاڑی کا رخ کیا تو دائیں جانب جی ایم سید پارک کا بورڈ پڑھا۔ آگے جماعت اسلامی اور اِکا دُکا جمعیت علمائے اسلام کا جھنڈا بھی لہراتے پایا۔ گویا سب نارمل تھا۔
سکھر سے شکار پور جاتے، پھر تحصیل گمبٹ (خیر پور) پہنچنے پر شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کے وی سی ڈاکٹر رضا بھٹی کو جب میں نے کہا کہ مجھے دو دن سے یہی لگ رہا ہے میں لاہور ہی میں ہوں جیسے مگر اندر سے مجھے احساس ہوا، شاید میں نے لاہور ہی میں ہونے کا جملہ قبل از وقت کہہ دیا ہے لیکن اندرونِ سندھ کے مطالعاتی دورہ کا تیسرا پورا روز لاڑکانہ میں گزارنے کے بعد مطمئن تھا کہ درست کہا۔ سندھ لاڑکانہ سمیت ضیائی دور کا پی ٹی وی ’’ڈرامہ‘‘ نہیں اور نہ سیاسی مخالفین کے بیان سا خوفناک خبرنامہ۔ چار دن لُور لُور پھر کر جتنا سندھ دیکھا یہ صاف شفاف گلوبل ویلیج لگا۔ وہ جو سن رکھا تھا کہ وڈیرے اور بالخصوص پیپلز پارٹی کے رہنما لوگوں کو اسکول نہیں جانے دیتے کہ لوگ پڑھ لکھ کر ووٹ نہیں دیں گے،
ہم نے ایسا کچھ نہیں دیکھا، یہاں تو ہر شہر میں ہائی اسکولوں کی طرح پھیلی یونیورسٹیاں پوری جدتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ایسا لگا کہ میں نے بڑی دیر کر دی سندھ پہنچتے پہنچتے، خود دیکھنے اور پرکھنے سے قبل مجھ تک پہنچنے والی خبریں ادھوری تھیں اور کچھ خبریں پروپیگنڈا۔ میرے تصور میں بھی نہ تھا کہ سکھر کا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو واسکولر ڈیزیز (NICVD) بین الاقوامی معیار اور دو سو فیصد اعتبار والا ہوگا جو کراچی تا سکھر خدمات میں پیش پیش ہے۔
ادویہ اندر ہی دستیاب اور فری، ہر دل کے مریض کیلئے باقاعدہ فری پروٹوکول دستیاب، ڈاکٹروں کی تھکن میں بھی مسکراہٹ، (سندھ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا تصور نہیں) اس ہیلتھ سینٹر کے کم وبیش آٹھ سب سینٹرز سندھ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کراچی سے دیہی علاقوں تک بسوں میں تقریباً 25موبائل کلینک کا اہتمام عمل میں لایا گیا، ڈاکٹر اور بنیادی سہولتوں سے مزین۔ معلوم ہوا یہ ڈاکٹر ندیم قمر کا برین چائلڈ ہے۔ ڈاکٹر ندیم قمر ڈاؤن ٹو ارتھ پرسنیلٹی، سوائے خدمت کوئی ذوق ہے ہی نہیں۔ امریکی ہیلتھ ڈپلومیٹ ہوتے ہوئے سب آسائشوں کو پسِ پشت رکھ کر قومی خدمت کا بیڑا اٹھانا قابلِ ستائش ہے۔ یہ پیپلز پارٹی رہنما سید نوید قمر کے بھائی ہیں۔
کمال یہ کہ اس فری اسپتال سفارش کی ضرورت ہی نہیں۔ میں نے اس کے سکھر کے سربراہ ڈاکٹر موسیٰ میمن کو برملا کہا کہ موٹروے پولیس کے بعد پہلا ادارہ دیکھا جس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ سندھ سرکار نے اسے ایسا مربوط بنا رکھا ہے کہ وزیر کوئی بھی ہو اس کا نظام خودکار ہے، مریض وزیر کے پیچھے نہیں بھاگتے۔ یہاں ملک بھر سے مریض دیکھے اور آلات بھی بین الاقوامی معیار کے۔
گمبٹ تحصیل جس کا کبھی نام بھی نہ سنا تھا جب گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے کالج اور اسپتال کو دیکھا، اس میں بھی وہ آلات دیکھے جو پاکستان میں اور کہیں نہیں، حیرانی ہوئی اور خوشی بھی۔ سندھ میں ایسا بھی ادارہ ہے جہاں لیور پلانٹ (جگر پیوند کاری) پر کام ہورہا ہے، کڈنی ٹرانسپلانٹ (گردہ پیوند کاری) پر کام تو پہلے ہی جاری تھا۔ میں اس شخص سےملا جس کے عشقِ لاحاصل نے حاصل کو خدمت کی شاہراہ پر لاکھڑا کیا۔ وہ جو کبھی 80کی دہائی میں 3کمروں کی ڈسپنسری تھی، آج وہاں عالیشان عمارت ہے اور دنیا کی ٹاپ کلاس سہولتیں۔ مسیحائی کی یہ شان دیکھ کر درویش صفت انسان ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کے دست ِ مبارک کا بوسہ لینا فرض بن گیا تھا۔
شروع میں جرمنی کے ماہرین کی ٹیم سے ابتدا کی گئی آج جگر کی پیوند کاری کیلئے اپنی دو ٹیمیں تیار کرچکے، آغاز میں دو تین آپریشن میں کڈنی ڈونر اور مریض دونوں نہ بچ سکے مگر ڈاکٹر بھٹی کی ٹیم نےہمت نہ ہاری، پھر ایک اور درویش کو لاہور سے دریافت کرلیا۔ یہ قلندر عزم کا استعارہ ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر ہے۔ میرے ساتھ کراچی سے ڈاکٹرز کی ٹیم اور آزاد کشمیر کے ساتھی انجینئر خواجہ انیس (تینوں پیپلزپارٹی مخالفین) نے بےساختہ کہا ایسا سیٹ اَپ پاکستان میں اور کہیں نہیں، یہ مغرب کے اداروں کی ٹکر کا ہے، لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کی شرح دنیا بھر میں مثالی ہے۔ قارئین باتمکین اس ادارے کی بہت سی خوبیاں قابلِ بیان جو پھر سہی، یہ دورہ سندھ میں تعلیم اور صحت کے کئی باب سمیٹے ہوئے ان کا تذکرہ بھی پھر کبھی بہرحال گمبٹ انسٹیٹیوٹ سے منسلک میڈیکل کالج میں بھی طلبہ فورتھ ائیر تک پہنچ چکے ہیں۔
سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کا بھی پبلک سیکٹر میں کوئی مقابل نہیں، ڈاکٹر انیلہ عطاء الرحمٰن اور ان کی شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی تفصیلات پھر کبھی۔ فی الحال دورہ اور کالم بھٹو اور بی بی کے مزار گڑھی خدا بخش میں ختم کررہا ہوں۔
ہاں، بہرحال سندھ مسیحائی میں آگے نکل گیا سو سب تقلید کریں، پروپیگنڈا نہیں!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ