سیاست دوراں میں تلخی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے’ نون لیگ کے سوشل میڈیائی مجاہدین اور جیالے ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔
سابق جیالوں اور متوالوں کا وہی حال ہے، پچھلی محبتوں میں سے شرعی نقائص نکال رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی تشدد کے مرتکب مجرموں کو سرعام پھانسی دئیے جانے کی قرارداد کی منظوری کے بعد نئے محاذ کھل چکے۔ متعدد وفاقی وزراء مدمقابل ہیں۔
قرار داد کے محرک علی محمد خان گرج برس رہے ہیں مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ کیا سخت گیر سزائوں سے جرائم کم ہوتے ہیں۔
اور یہ کہ بچوں سے جنسی تشدد کی شرعی سزا درحقیقت ہے کیا؟
کیا سرعام پھانسی اسلامی سزا ہے۔
معاملات اور مسائل پر جذباتی اندازفکر کی بجائے حقیقت پسندی کے مظاہرے کی جو ضرورت ہے وہ ہمارے سماج میں کم سے کم ہے۔
ہم جیسے طلباء جب یہ کہتے ہیں کہ اصلاح معاشرہ بہت ضروری ہے۔ نصاب تعلیم جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر بچوں میں شعور اُجاگر کرنے والے اسباق کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جانا چاہئے تو بھد اُڑائی جاتی ہے،
لادین ہونے کے طعنے مارے جاتے ہیں۔
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ بچوں سے جنسی تشدد’ ہم جنس پرستی اور بے راہ روی، ہم نے کبھی ان کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
دینداروں کا خیال ہے کہ جدیدیت بگاڑ کا سبب ہے جدیدیت پسند دینداروں پر تلواریں سونتے ہوئے ہیں۔ دونوں طرف شدت پسندی عقل کو کھا رہی ہے۔
نصاب تعلیم میں تبدیلی کیساتھ اقامتی درسگاہوں کے ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سخت گیر سزائوں کو اسلامی سزائیں کہہ، پیش اور عمل کرکے جرائم کم کرلیں گے تو یہ خواب فروشی کے سوا کچھ نہیں۔
بلاشبہ سخت سے سخت سزا ہونی چاہئے’ جنسی درندگی پر سزائے موت دینی ہے تو بالکل قاعدے قوانین کے مطابق جیل کے پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیجئے
لیکن اگر آپ ضیائی آمریت یا طالبانائزیشن کی پیروی پر بضد ہیں تو ذہن نشین رکھئے کہ اس سے خیر کی بجائے بگاڑ زیادہ بڑھے گا۔
تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ یہ کوئی باقاعدہ منظم نظریاتی جماعت ہے نا سیاسی عمل کی اونچ و نیچ سے گزری جماعت۔ مختلف الخیال طبقات کا اپنے اصل مقامات سے ہجرت کرکے نئی جماعت میں شامل ہوئے لوگوں کا ہجوم ہے۔
اس میں سابق جیالے ہیں اور متوالے بھی۔ ماضی میں جہادی تنظیموں کی محبت میں گرفتار لوگ بھی تو بہت سے وہ بھی ہیں جن کا خمیر مذہبی جماعتوں سے اُٹھا ہے۔ صبح لبرل دکھنے والی جماعت شام کو خالص سخت گیر مذہبی جماعت دکھائی دیتی ہے۔
جناب عمران خان سمیت بہت سارے لوگ توہمات پر یقین رکھتے ہیں۔
اسد قیصر اور علی محمد خان جیسے لوگوں کا آئیڈیل طالبان ہیں۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والا ملک بنیادی طور پر جمہوریت پسند اور دستور پر یقین رکھنے والا ملک ہے۔
قانون سازی کرتے وقت چند جذباتی اور عقل سے پیدل لوگوں کی خواہشات نہیں شرف انسانیت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اقوام کی برادری کے درمیان معلوم جغرافیہ میں قائم ملک میں قانون سازی کرتے وقت یا کسی مسئلہ پر پارلیمان سے قرارداد منظور کرواتے وقت دو باتیں پیش نظر رکھنا ہوں گی
اولاً یہ ہے اقوام متحدہ’ جنیوا کمیشن’ انسانی حقوق کے اداروں کیساتھ ہمارے کچھ معاہدات ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہم کسی نامعلوم خطے پر آباد ہرگز نہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچوں سے جنسی درندگی کے مجرموں کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔
حال ہی میں یورپ کے قریب کے ایک غیریورپی ملک میں بچوں سے جنسی تشدد کے جرم پر قوت مردمی سے محروم کرنے کے انجکشن کی سزا تجویز ہوئی ہے، ہمیں بھی اس پر غور ہونا چاہئے۔
سزائے موت دینی ہے تو دوسرے موت کے حقداروں کی طرح دیجئے مگر خدا کیلئے ہر بات میں اسلام کو درمیان میں نہ لائیں۔
جب ملکی دستورکہتا ہے کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بن سکتا تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ خود قرآن و سنت میں بچوں سے جنسی درندگی کے مرتکب مجرموں کی کیا سزا ہے؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موجود قوانین سے انحراف نئے مسائل کو جنم د ینے کا مؤجب بنے گا۔
علی محمد خان اسلام پر اتھارٹی ہرگز نہیں، کوئی بھی چند آیات اور درود شریف کی تلاوت سے مذہبی سکالر نہیں بن جاتا، بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
اصولی طور پر قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی درندگی کے مرتکب افراد کو سرِعام موت کی سزا والی قرارداد کی منظوری سے قبل قوانین و معاشرت ہر دو کو مدنظر رکھ کر بحث ہونی چاہئے تھی مگر بدقسمتی سے ہم جذبات کے گھوڑوں پر سوار ہوتے ہوئے حقائق کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
یاد پڑتا ہے کہ ایک تین سالہ بچی سے ہونے والی جنسی درندگی پر جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر سید منور حسن نے ارشاد فرمایا تھا
”یہ سب بے پردگی اور فیشن کاکیا دھرا ہے”
تب بھی ان سطور میں عرض کیا تھا
کیا تین سالہ بچی نے جو جنسی درندگی کا شکار ہوئی ہوس کی آگ بھڑکانے والا فیشن کر رکھا تھا؟۔
اب بھی یہی عرض کروں گا قوانین پہلے سے موجود ہیں انہیں مزید بہتر بنائیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قوانین پر عملدرآمد کو بہرصورت یقینی بنائیں۔
قانون سازی کو کفر واسلام کا مسئلہ نہ بنایا کریں، ہم اور ہمارا سماج کفر واسلام کی ایسی سستی جنگوں کے بھیانک نتائج بہت بھگت چکے ہیں۔
اسلام یا کوئی بھی دین انسانیت کی تذلیل یا گھناونے جرائم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
جرم جرم ہوتا ہے دیندار کرے یا جدیدیت پسند، فرد کے جرم پر اس کے طبقے، مذہب اور عقیدے کو ذمہ دار قرار د ینا کبھی درست نہیں سمجھا گیا۔
ہاں یہ آواز ضرور اُٹھی کہ اصلاح معاشرہ اور قانون کی عملداری کیلئے ہر ممکن اقدامات اُٹھائے جائیں۔
مکرر عرض کرتا ہوں سستی جذباتیت کی نہیں حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔
نظام تعلیم اور نصاب میں تبدیلی کیساتھ قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سماج سدھاروں’ سیاسی کارکنوں اور اہل دانش کو دوقدم آگے بڑھ کر سماج کی راہنمائی کرنا ہوگی۔
اقامتی درسگاہوں کیساتھ صنعتی اداروں کی ان اقامت گاہوں کے ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جہاں دور دراز سے آئے وہ محنت کش مقیم ہوتے ہیں جو خاندان کو ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جس خرابی کو دور کرنے کیلئے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہو اُسے صرف قانون بنا کرختم نہیں کیا جاسکتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ