1954میں قائم ہونے والا گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یار خان اس وقت ضلع کا سب سے بڑا اور سرائیکی وسیب کی دوسرا بڑا سرکاری تعلیمی ادارہ ہے.جو طلبا و طالبات کو پوسٹ گریجوائیٹ کلاسز کے علاوہ جدید علوم کے کئی کورسز بھی کروا رہا ہے.
7500کے قریب طلبا و طالبات یہاں زیر تعلیم ہیں.پروفیسر محمد اکرم چودھری کے بعد کالج کےموجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل بھٹی نے ادارے کے تعلیمی معیار اور ماحول میں بہتری کے لیے جس جذبے اور احساس کے ساتھ خدمات سر انجام دیں ہیں یا دے رہے ہیں. ان کی سوچ اور عمل قابل ستائش ہے.تعلیمی اداروں میں جہاں طلبہ و طالبات کو ٹیویشنز پڑھنے پر مختلف طریقوں سے مجبور کرنے والے اور بھاری فیسز لینے والے پروفیسر اساتذہ موجود ہیں.
وہاں پرنسپل سمیت خواجہ فرید کالج میں کئی ایسے عظیم استاتذہ کرام بھی موجود ہیں جو نہایت غریب اور مستحق طلبہ کی حالات زار کو دیکھ اپنی تنخواہ سے وردیاں اور جوتے تک انہیں لے کر دیتے ہیں. مہنگائی کے اس دور میں عیال دار اور تخوار دار طبقے سے تعلق رکھنے والے کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں رہا.اللہ ان کے جذبے اور ایمان کو سلامت رکھے. خواجہ فرید کالج میں یونیورسٹیوں کے مقابلے میں طالب علموں کو کم فیسز کے ساتھ ان کے برابر معیار کو مختلف کورسز اور ڈپلومہ جات کروائے جا رہے ہیں.
یونیورسٹیز میں جس کورس اور ڈپلومہ کا صرف ایک سمیسٹر50000ہزار میں کروایا جاتا ہے خواجہ فرید کالج میں اس کی ٹوٹل فیس صرف اور صرف 34000روپے لی جارہی ہے. دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ تعلیمی ادارہ حقیقتا غریبوں اور مڈل کلاس لوگوں کے بچوں بچیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے.ان حقائق اور حالات کی روشنی میں تو یہ ادارہ گورنمنٹ اور مخیر حضرات کی توجہ کا مرکز ہونا چاہئیے لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ اتنی بڑی عظیم درس گاہ آج کے اس دور میں بھی گونا گون مسائل کا شکار ہے.
ادارے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے. ماضی کی طرح آج بھی اسے حکمرانوں اور تخت لاہور کی بیورو کریسی نے نظر انداز کیا ہوا ہے.اس کے منصوبے التواء در التواء کا شکار ہیں. فنڈز میں جبری کٹوتیوں کے سلسلے آج بھی جاری ہیں.تخت لاہور کی بیورو کریسی کا بے جا اعتراضات لگا کر سرائیکی وسیب کےتعلیم و صحت اور دوسرے ادارہ جات کی حق تلفی اور استحصال پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی جاری و ساری ہے.خواجہ فرید کالج میری مادر علمی ہے. میں نے یہاں سے 1985.87میں ایف اے کیا تھا پھر ایف سی کالج لاہور چلا گیا.
میری اپنے وسیب اور وسیبی اداروں سے محبت ہمیشہ بھر پور و جوان رہی ہے. 1991,92میں میں ایف سی کالج لاہور کے ٹیپو ہال نیلا گنبد میں رہتا تھا. وہاں محترم نثار علوی، حنیف صابر چودھری جیسےصحافی دوستوں کے ذریعے اردو اور انگلش اخبارات میں حکمرانوں سے خواجہ فرید کالج میں ایم اے کی کلاسز شروع کرنے کے مطالبات کیا کرتا تھا. راقم الحروف کو خواجہ فرید کالج میں اس وقت کے ضلع ناظم مخدوم احمد محمود کی شفقت سے سرائیکی مضمون کی کلاسز شروع کروانے کا اعزاز بھی حاصل ہے.یہ جہاں منافقتوں اور رکاوٹوں کی ایک طویل داستان ہے وہاں یہ اپنے محبتوں، احساس، حق و احترام کا ایک عظیم جذبہ بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے. فی الوقت کیونکہ یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے.
دونوں قسم کے کرداروں پر پھر کبھی ضرور بات ہوگی. آج ہمارا موضوع اور نقطہ نظر خواجہ فرید کالج کے مسائل ہیں. میں اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل خواجہ فرید کالج کے مسائل سے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک نجی ٹیلی ویژن کی رپورٹ پر ایک کسان دوست رحیم یار خان کے بےباک و بے دھڑک شہری جمیل ناصر چودھری کے مذکورہ پوسٹ پر دیئے گئے کومنٹس کو من و عن آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں. وہ لکھتے ہیں.
ُ ُ گذشتہ سال سے بجٹ آرھا ھے ابھی آرھا ھے. بجٹ آتا ھے پھر دوسرے منصوبوں کیلئے ٹرانسفر کروالیا جاتا ھے. کیونکہ ایک نااہل ڈسٹرکٹ ڈپٹی ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ رحیم یار خان تعینات ھے جو کہ اپنے ھی پاس شدہ پلان کا تحفظ کرنے میں بلکل ناکام ھے کیونکہ 10 سال سے ایک جگہ پوسٹ پر رھنا اس سیاسی خوشامدی و چاپلوسی شخص کامیاب فارمولا ھے. ایسی وجہ سے پاس شدہ بجٹ ٹرانسفر کردیتا ھے. ایسے لوگوں اتنی اہم پوسٹ پر کیوں ھیں؟
اب موجودہ MNA& MPA کی طفل تسلیاں سنیں کہ آئندہ DPCمیٹنگ کا وعدہ بلکہ بہانہ بنا کر جان چھڑے والے یہ حکومتی نکمے نمائندے احساس کمتری کا شکار لوگ جو اپنے شہر کی ترقی کیلئے بجٹ نہ لیں سکیں اور خود آیا ھوا بجٹ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر لیں اور پھر کہیں کہ ھم آپ کے دوکھ سوکھ کے ساتھی ھیں.
ھمت کرو عوامی مفادات کے تحفظ کی ناکامی تسلیم کرو اور فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفے دو تاکہ اہل لوگ عوامی خدمت کیلئے آگئے آئیں. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، سرائیکی وسیب کے حصے کے وسائل، فنڈز اور حقوق کے حصول کے لیے ہر شخص کو بلاتفریق جمیل ناصر چودھری کی طرح حق اور سچ کی بات کرنی اور آواز اٹھانی ہوگی وسائل کا رخ سرائیکی وسیب کی جانب موڑنے کے سب دعویداروں سے پوچھیں کہ وسائل اور فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں. تبھی جاکر ہمارے خطے کو اس کا حق ملے گا ہمارے تعلیمی اداروں ہسپتالوں اور دیگر اداروں کے حالات بہتر ہوں گے. لاہور کے اداروں کی طرح انہیں فنڈز اور سہولیات دستیاب ہو سکیں گی.جن سے یہاں بسنے والے لوگوں کی اولادیں بلاتفریق مستفید ہوں گی.
7500طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے خواجہ فرید کالج کے پاس صرف 54کلاس روم ہیں. آدھے سے زیادہ طالب علم سردیوں میں کھلے آسمان تلے اور گرمیوں میں درختوں کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں. ایسے ماحول میں دی جانے والی تعلیم کا اندازہ آگےآپ خود لگا لیں. لاہور کے بڑے نامور اداروں کے ساتھ موزانہ تو بہت ہی دور کی بات ہے میں لاہور کے ایک اوسط درجے کے کالج کی صرف پڑھانے استاتذہ کرام کے حوالے حقیقت حال آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ہم سب کو اور وقت کے حکمرانوں کو معلوم ہو سکے ہو یہاں تقسیم اور تفریق اور انصاف کا کیسا نظام راج ہے.لاہور کے 5000تعداد والے سرکاری تعلیمی ادارے میں173اساتذہ کرام ہیں. 7500تعداد والے ضلع رحیم یار خان کے سب سے بڑے اور نامور تعلیمی ادارے خواجہ فرید کالج میں صرف83استاد ہیں.
اساتذہ کرام کی کمی کو کیونکر پورا نہیں کیا جا رہا?. آج یہ اتنا بڑا ادارہ اعزایہ دے کر پڑھے لکھے لوگوں کی منت سماجت کرکے استاتذہ کی کمی کو ماہانہ درجنوں اعزاری لیکچرارز کے ذریعے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے پر مجبور ہے. یہاں دیگر سٹاف کا بھی یہی حال ہے. جہاں بیٹھنے کے لیے پورے کلاس روم نہ ہوں پڑھانے کے لیے پورے استاد نہ دیئے جائیں ان بچوں اور بچیوں کا مزید اعلی تعلیم اور ملازمت کے امتحانات میں مقابلہ لاہور کے طلبہ و طالبات کے ساتھ کروانا انصاف نہیں بنتا.
یکساں نظام تعلیم اور یکساں سہولیات فراہم کرکے مقابلہ بنتا ہے. بصورت دیگر پسماندہ اضلاع اور علاقوں کا حصہ علیحدہ کیا جانا چاہئیے. میرے خیال میں موجودہ نظام کو استحصالی نظام بلکہ ڈاکو نظام کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا. بیورو کریسی کی اسی سوچ، زیادتیوں اور مسلسل ناانصافیوں سے تنگ عوام تخت لاہور سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنا علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں. خواجہ فرید کے طلبہ و طالبات کو لے آنے جانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں بسیں نہیں ہیں. یہاں طلبا اور طالبات کی رہائش کے لیے ہاسٹلز نہیں ہیں. کالج کے جو تین ہاسٹل تھے.بے اے، بی ایس سی کے طلبہ کے وقف لیاقت ہاسٹل اسلامیہ یونیورسٹی کے کئی سالہ قبضے کے بعد ہائی کورٹ میں کیس کرنے کے بعد واگزار ہوا ہے.
تعلیمی بلاکس اور کلاسز رومز کی شدید کمی کی وجہ سے وہاں ایجوکیشن کا سلسلہ جاری کر دیاگیا ہے.سب سے پہلا جناح ہاسٹل اپنی مدت سے کافی زیادہ سال گزار لینے اور کئی سال قبل محکمہ بلڈنگ کی جانب سے خطرناک ترین قرار دیئے جانے کے بعد کھنڈر بن چکا ہے. بند ہونے کی وجہ سے بھوت بنگلہ بنا ہوا ہے. ہمارے دور میں یہ ایف ایس سی کے طلبا کے لیے وقف تھا. پیچھے بچ جانے والا تیسرا اقبال ہاسٹل جو ایف اے کے طلبہ کے لیے وقف رہا ہے جہاں میں نے بھی زندگی کے دو قیمتی سال گزارے ہیں. 52کے لگ بھگ گنجائش رکھنے والے اس ہاسٹل میں پتہ چلا ہے کہ اب 100 کے قریب طلبہ کو ٹھونس کر رکھا جا رہا ہے. یہاں رہنے والے بے چارے اس ماحول میں کیا پڑتےہوں گے. کیسے سوتے ہوں گے. ڈائننگ روم میں نہ جانے کتنی شفٹوں میں ناشتہ کرتے اور کھانے کھاتے ہوں گے.
ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز کے غریب طلبہ و طالبات شدید پریشان ہیں. در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.شہر میں نامناسب اور مہنگی جگہوں پر رہنے پر مجبور ہیں. کالج میں جگہ موجود ہے وہاں ضرورت کے مطابق ہاسٹل بنا کر کیوں نہیں دیئے جاتے.میرے خیال میں خواجہ فرید کالج کو اس وقت کم ازکم سو تعداد کی گنجائش رکھنے والے ایک گرلز ہاسٹل اور دو دو سو کی گجائش رکھنے والے چار بوائز ہاسٹل کی اشد ضرورت ہے.یہ دو تین منزلہ بلڈگز بنائیں جائیں. 60کے قریب نئے کلاس روم اور کم از کم تین نئی بسیں بھی کالج کی ضرورت ہیں.
شہر سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے چودھری آصف مجیدآرائیں، ایم این اے چودھری جاوید اقبال وڑائچ اپنے حلقہ انتخاب میں واقع اس عظیم درس گاہ کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائیں. سول سوسآئٹی کو بھی تخت لاہور سے ڈرنے والے ان عوامی نمائندگان کا ہم نوا بننا چاہئیے. ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزادر کا بھی حق اور فرض بنتا ہے کہ وہ اس ضلع اور سرائیکی خطے کی اس عظیم درس گاہ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے اس کے لیے فنڈز جاری کرائیں تاکہ غریب اور مڈل کلاس عوام کی اولادیں یہاں بہتر ماحول اور مناسب سہولیات میں تعلیم حاصل کر سکیں.
اکثرجاگیرداروں صنعت کاروں کی اولادیں تولاہور میں پڑھتی ہیں یا پھر بڑے بڑے ناموں والے برانڈڈ تعلیمی اداروں میں.جاگیرداروں اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری والے طبقے کی بچے یہاں پڑھتے ہوتے تو اس ادارہ کا یہ کسمپرسی اور یتیمی والا حال نہ ہوتا . وزیر اعلی پنجاب کو چاہئیے کہ وہ اس کالج کے 30کروڑ روپے کے فنڈز پر بے جا اعتراض لگانے والے استحصالی سوچ کے حامل بیورر کریٹ کی حرکت کا نوٹس لیں. کالج کے لیے نئی بس خریدنے کے لیےجاری ہونے والے80لاکھ روپے کے فنڈز میں سے فورا بعد 35لاکھ روپے کی ڈکیتی ڈال کر اور باقی فنڈز لیپس کرکے ضائع کروانے والے تخت لاہور کے وفادار بیورو کریٹس سے پوچھیں. اگر اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ پر بھی وہ ان حق تلفیوں اور زیاددتیوں پر نوٹس لے کر تلافی اور ازالہ نہیں کروا سکتے تو انہیں ایسے نمائشی عہدوں سے استعفی دے دینا چاہیئے.
بصورت دیگر عوام یہ سوچنے اور سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وسیب اور یہاں کے عوام کے ساتھ جو ظلم و زیادتی، استحصال و نا انصافی ہو رہی ہے. جو سوتیلا سلوک روا رکھا جا رہا ہے. اس میں ہمارے ان مخادیم اور سردار صاحبان کی منشا بھی شامل ہے.
محترم قارئین کرام،، عوامی ایشوز پر جب تک متعلقہ علاقے ضلع اور وسیب کے عوام خود نہیں بولیں گے ان کے لیے اور کوئی نہیں بولے گا.آئیے خواجہ فرید کالج سمیت اپنے ضلع اور وسیب کے ہسپتالوں سکول و کالجز اور دیگر مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائیں. اپنے اپنے گنگدام اور شرمیلے عوامی نمائندگان کو مجبور کریں کہ وہ تخت لاہور جا کر وہاں بولنا اور کام کروانا سیکھیں.
جرات کریں بات نہ سننے پر احتجاجا استعفے ان کے منہ پر ماریں.اپنے عوام کی بات کریں اپنے عوام کے ساتھ سانجھ کریں. میرا ضلع رحیم یار خان کے تمام این ایم ایز اور ایم پی ایز صاحبان کو مشورہ ہے کہ وہ ایک ساتھ مل کر وزیر اعلی سے ملاقات کریں خواجہ فرید کالج سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے مسائل فوری اور ترجیحا حل کروائیں. ضلع کے سب سے بڑے کالج کے جملہ مسائل کا کے حل کی ذمہ صرف چودھری آصف مجید آرائیں اور چودھری جاوید اقبال وڑائچ کی نہیں آپ سب کی ہے. تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے وابستہ تمام حضرات سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرض کا احساس کریں.آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کو ہدایت اور توفیق عطا فرمائے آمین.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر