ایک دفعہ ایک صحافی اپنے پرانے ریٹائرڈ استاد کا انٹرویو کر رہا تھا اور اپنی تعلیم کے پرانے دور کی مختلف باتیں پوچھ رہا تھا۔
اس انٹرویو کے دوران نوجوان صحافی نے اپنے استاد سے پوچھا۔۔سر ایک دفعہ آپ نے اپنے لیکچر کے دوران ۔۔contact …اور connection … کے الفاظ پر بحث کرتے ہوے ان دو الفاظ کا فرق سمجھایا تھا اس وقت بھی میں کنفیوز تھا اور اب چونکہ بہت عرصہ ہو گیا ہے مجھے وہ فرق یاد نہیں رہا ۔
آپ آج مجھے ان دو الفاظ کا مطلب سمجھا دیں تاکہ مجھے اور میرے چینل کے ناظرین کو آگاہی ہو سکے۔استاد مسکرایا اور اس سوال کے جواب دینے سے کتراتے ہوے صحافی سے پوچھا ۔
کیا آپ اسی شھر سے تعلق رکھتے ہیں ؟ شاگرد نے جواب دیا ۔۔جی ہاں سر میں اسی شھر کا ہوں۔ استاد نے پوچھا آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے۔ شاگرد نے سوچا کہ استاد صاحب میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے اس لیے ادھر ادھر کی مار رہے ہیں۔
بہر حال اس نے بتایا میری ماں وفات پا چکی ہے۔والد صاحب گھر میں رہتے ہیں۔ تین بھائی اور ایک بہن ہے اور سارے شادی شدہ ہیں۔ ٹیچر نے مسکراتے ہوے نوجوان صحافی سے پوچھا ۔۔تم اپنے باپ سے بات چیت کرتے رہتے ہو؟
اب نوجوان کو غصہ بھی آیا اور کہا جی میں باپ سے گپ شپ کرتا رہتا ہوں۔ استاد نے پوچھا یاد کرو پچھلی دفعہ تم باپ سے کب ملے تھے؟
اب نوجوان نے غصے کا گھونٹ پیتے ہوے کہا ۔شاید ایک ماہ ہو گیا ہے جب میں ابو کو ملا تھا۔ استاد نے کہا تم اپنے بہن بھائیوں سے تو اکثر ملتے رہتے ہوگے۔
بتاو پچھلی دفعہ تم سب کب اکٹھے ہوے تھے اور گپ شپ حال احوال پوچھا تھا؟ اب تو صحافی صاحب کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور لینے کے دینے پڑ گیے وہ سوچنے لگا میں تو استاد کا انٹرویو لینے چلا تھا مگر الٹا استاد میرا انٹرویو لینے لگا ہے۔
اس نے ایک آہ بھر کر لمبا سانس لیتے ہوۓ بتایا کہ شاید دو سال ہو گیے جب ہم بہن بھائی اکٹھے ہوے تھے۔ استاد نے ایک اور سوال داغتے ہوے پوچھا تم لوگ کتنے دن اکٹھے رہے تھے؟۔ نوجوان نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے جواب دیا ہم لوگ تین دن اکٹھے رہے تھے۔
استاد نے پوچھا تم اپنے والد کے پاس بیٹھ کر کتنا وقت گزارتے ہو؟ اب تو نوجوان صحافی بہت پریشان ہو گیا اور نیچے میز پر رکھے کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ استاد نے پوچھا کبھی تم نے باپ کے ساتھ ناشتہ۔لنچ یا ڈنر بھی کیا ہے؟
کبھی آپ نے ابو سے پوچھا وہ کیسے ہیں ؟کبھی تم نے باپ سے دریافت کیا کہ تمھاری ماں کے مرنے کے بعد اس کے دن کیسے گزر رہے ہیں؟ٍ اب تو انٹرویو کرنے والے صحافی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو برسنے لگے۔
استاد نے صحافی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ بھائی پریشان ۔شرمندہ۔مایوس یا اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے بے خبری میں تمھیں ہرٹ کیا اور دکھ پہنچایا۔ لیکن میں کیا کرتا مجھے آپ کے سوال Contact اور connection .. کا جواب دینا تھا۔ اب سنو۔۔۔
ان دو لفظوں کا فرق یہ ہے کہ تمھارا contact یا رابطہ تو تمھارے ابو سے ہے مگر connection یا تعلق ابو سےنہیں رہا یا کمزور ہے۔کیونکہ تعلق یا کنکشن دلوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ جب کنکشن یا تعلق ہوتا ہے تو آپ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں
ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے گلے سے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام خوشی خوشی سرانجام دیتے ہیں۔ جیسے ایک معصوم بچے کی ماں اس کو سینے سے لگاتی ہے چومتی بغیر مانگے دودھ پالاتی ہے اس کی گرمی سردی کا خیال رکھتی ہے جب وہ چلنا شروع کرتا ہے تو ساے کی طرح اس کے پاس رہتی ہے تاکہ وہ گر نہ جاے کوئی غلط چیز نہ کھا لے۔
گر پڑے تو اس بچے کو گلے سے لگا کر چپ کراتی ہے۔ تو میرے پیارے شاگرد آپ کے باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ صرف contact یا رابطہ ہے مگر آپ کے درمیان connection یا تعلق نہیں ہے۔
نوجوان صحافی نے اپنے آنسو رومال سے صاف کیے اور استاد کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا سر آپ نے مجھے آج ایک بہت بڑا سبق پڑھا دیا جو زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے کہ ہمارے آپس میں بڑے رابطے ہیں مگر کنکشن بالکل نہیں۔ آج فیس بک پر ہمارے پانچ ھزار فرینڈز ہیں مگر حقیقی زندگی میں ایک بھی نہیں۔
آج ہم صبح سویرے سیکڑوں دوستوں کو گڈ مارننگ کہ کر بغیر خوشبو کے پھول بھیجتے ہیں حقیقی زندگی میں ایک پھول کی پتی بھی نہیں ملتی آج ہمارے فیس بک پر ھزاروں ہیپی برتھ ڈے کے پیغامات اور خوبصورت کیک کی تصویریں ملتی ہیں حقیقی زندگی میں ایک بھی یار نہیں جو گھر آکے گلے سے ملکر سالگرہ کی مبارک دے اور سینے سے سینہ بھینچ کر کہے سالگرہ مبارک میرے یار۔۔
آج ہم تمام لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور کاغذ کے بے خوشبو پھولوں ۔بڑے کیک کی تصویروں۔ سرخ رنگ کے دل کی بنی سیمیلی پر زندہ ہیں؎
چھوڑ دے یار اب کھیل تماشے ۔ دیکھ سوانگ رچاتے اپنا اصلی چہرہ کھو بیٹھے گا۔
اپنے آپ سے جو اک رسمی سا رشتہ ہے ۔ہاتھ اس سے بھی دھو بیٹھے گا ۔
چھوڑ دے جھوٹی شہرت کے مصنوعی دعوے ۔ عشق و محبت کے یہ جعلی نعرے۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر