گزشتہ دنوں جام پور میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا تھا اور انسانی حقوق کی بات کی جارہی تھی،کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات ہورہی تھی جس میں سدا بہار ممبر قومی اسمبلی اور صوبائی وزیر آبپاشی پنجاب بھے شریک تھے کہ نامعلوم کسی کو کیا سوجھی کہ رعایا کی سند یافتہ قوم میں سے کسی نوجوان نے نعرہ بلند کیا”ہمارے ووٹ کا صلہ جام پور ضلع” لیکن اس کم فہم کو شاید معلوم نہ تھا کہ ہم تو رعایا ہیں اور ہمارا کام صرف سننا ہوتا ہے کیونکہ یہی چراغ جلیں گیں تو روشنی ہوگی
یہ ہمارا قیام پاکستان سے لیکر آج تک منشور و دستور رہا ہے اور آج بھی گویا کچھ ایسا کیاگیا خوشامدی حسب دستور اور حسب منشور اور حسب سابق مطمئن تھے کہ ہم تو رعایا اور غلام لوگ ہیں ہماری تو ہر دور میں بلے بلے رہی ہے مگر کیونکہ وہ نوجوان کم فہم تھا اس لیئے غلطی کی جسارت کر بیٹھا کیونکہ ہم تو رعایا ہیں ہماری کیا جرآت کہ ہم اپنے کسی خان سردار گودے وڈیرے سے کوئی سوال کرنے کی جسارت کرسکیں کیونکہ ہم کون ہوتے ہیں ووٹ کا صلہ مانگنے والے ہمیں تو چند ٹکوں کے عوض خرید کیا جاتا ہے اور جو خریدے جاتے وہ غلام ہوتے ہیں اور جو غلام ہوتے ہیں انکی کیا جرآت کہ وہ اپنے آقا سے کچھ پوچھ سکیں کچھ دریافت کرسکیں اور ایک اور نعرہ بھی لگایا گیا جس کو لکھنا شاید گستاخی کے ذمرے میں آئے اس لیئے ذکر نہیں کر رہا کیونکہ ہم تو رعایا ہیں اور رعایا کا کب حق بنتا ہے کہ کسی کو وہ کوئی رشتہ یا تعلق یاد دلائیں لیکن چند ایک زبیر بھٹہ جیسے چند لوگ جنہوں نے چند جماعتیں کیا پڑھ لیں شعورو آگہی کے سبب الیکشن کے دوران کیئے گئے معاہدوں کی کاپی تھمادی کہ جناب یہ معاہدہ طے ہوا تھا یا یہ کہ اسلام آباد میں جاکر جام پور ضلع بنائو کی باتیں ،
بنیادی تعلیم کی اصلاحات کی باتیں،چیئرنگ کراس لاہور میں پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کہ ہمیں بنیادی حقوق دیں جام پور ضلع بنائو تو زبیر بھٹہ صاحب سے دست بستہ گزارش اور اپیل ہے کہ یہ کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہے جناب الیکشن سے پہلے ایک وعدہ کیا تھا بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر وعدہ وفا نہ ہوسکا تو اس میں کیا ہمارے حاکموں کا اورگودوں کا کیا قصور پھر بھی قصور تو ہمارا ہے جو آج نامعلوم وہ کتنے برسوں بعد وہ حلقہ میں منہ دکھانے کے لیئے تشریف لائے اور ہم نے گستاخی کردی بھلا ایسے بھی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے سرداروں کی خوشی غمی دکھ سکھ وہ تو سب لاہور سے مشروط ہیں
بقول گورنر چوہدری محمد سرور کے تو انہیں کیا جام پور کے استحصال سے؟ محرومیوں سے ؟یہاں ٹاٹ اور چھپر نماسکولوں میں ہمارے بچے پڑھتے ہیں انکے تو نہیں بنیادی سہولیات سے محروم ہم ہیں وہ تو نہیں؟ کیونکہ مجھے یاد ہے کہ برسوں قبل ڈی جی کینال اور داجل کینال کی بندش کیخلاف ہم نے تونسہ بیراج پر دھرنا دیا کہ سالانہ کیا جائے اور پانی فراہم کیا جائے اور اسوقت کے حاکموں کو انکے ایڈریس پر درخواستیں بھجوائیں جو انہوں نے لینے سے بھی انکار کردیاتھا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو رعایا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورلڈ بینک کے ایک نمائندہ مسٹر ٹی بیار سائی ہان سے 2007میں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے توسط سے چک شہید راجن پور کیطرف بائی چانس ملاقات ہوگئی انہیں تفصیل سے بتا یا کہ آپ نے جو ورلڈ بینک کیطرف سے تونسہ بیراج کی ری ہیبلیٹیشن کے لیئے گرانٹس مہیاء کی ہیں کہ ٹیل تک پانی پہنچے اور غریب کسان کاشتکار کو فاعدہ حاصل ہو اور تونسہ بیراج سے نکلنے والی نہریں سالانہ ہوں اسکا تو کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہو پارہا تو انکے کہنے پر تخت لاہور سے فیکٹس فائنڈنگ کے لیئے اعلیٰ سطحی وفد آیا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 2020ہے اور وزیر آبپاشی پنجاب ہمارے حلقے سے ہیں مجال ہے کہ ہماری لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے والی اور لاکھوں انسانوں اور جانداروں کو پینے کا پانی فراہم کرنے والی نہریں سالانہ ہو یاوقت پر پانی ملے تو بھائی ہم تو غلام ابن غلام لوگ ہیں ہم تو رعایا ہیں ہماری کیا جرآت کہ ووٹ کا صلہ جام پور ضلع مانگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بعد میں خیال آیا کہ زبیر بھٹہ بھی بے شک غلط سہی مگر اسسٹنٹ کمشنر جامپور کا ایک غریب شہری کو تھپڑ اصل میں غریب شہری کو نہیں تھا بلکہ یہ وقت کے حاکم وزیر اعظم پاکستان جناب عمران احمد خان کے منہ پر تھپڑ تھا جس کی غلطی کے سبب آج ہم گونگی ذہنیت اور غلام سوچ کو یہ سوال کرنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہم بے وقوف لوگ بھی 126 دن کے دھرنے میں بحیثیت رعایا اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنے میں تو نہ جا سکے مگر ٹی وی کے آگے پڑے رہتے تھے اور عمران خان کی یہ باتیں سن سن کر شاید ہمیں اب خیال آگیا ہو کہ نہیں نہیں ہم رعایا نہیں؟ ہم بھی پاکستانی شہری ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں بے شک تعلیم نہیں،پینے کا پاک صاف میٹھا پانی میسر نہیں،آمدورفت کے بہترین وسائل اور رابطہ سڑکیں نہیں،صحت کی بہترین سہولتیں نہیں علاج معالجے کی سہولیات نہیں لاشیں روڈ پر رکھ کے کسی کے نوٹس کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی مشیر صحت کوئی حنیف پتافی سوشل میڈیا کے توسط سے روڈ پر رکھی لاش کا نوٹس لے کر ایمبولینس کا انتظام کرادے گا کفن دفن کے لیئے کچھ ہوجائے گا کیونکہ ہم تو رعایا ہیں اور سانحاتی قوم ہیں
زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹے کی حصول کے لائینیں،مویشی پال ہونے کے باوجود زہر / پوڈر ملا دودھ بچوں کو دیتے ہیں،دنیا کا سب سے بڑے نہری نظام کا ملک کہلانے والے غلیظ پانی سے سبزیاں اگاتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی پر لاکھوں کروڑوں کی ادویات صحت کے لیئے مختص مگر پینے کے پاک صاف میٹھے پانی کے لیئے اربوں روپے ضائع تو ہوجاتے ہیں لیکن رعا یا کو کیوں فاعدہ پہنچے اور ہاں مگر گندے پانی سے اگنے والی فصلوں کو پنجاب فوڈ اتھارٹی سے تلف کرادیتے ہیں اور مارکیٹ کمیٹی سے روزانہ کی بنیاد پر 2روپے والی ریٹ لسٹ 10میں بیچ کر اور ہر دوکان پر پہنچا کر ہم فرض پورا کر کے سمجھتے ہیں اب اشیائے خوردونوش و اشیائے ضرورت روزمرہ زندگی مناسب قیمت پر ملیں گی کیونکہ ہم تو رعایا ہیں
اور یہ بہت بڑی غلطی کر بیٹھے کہ جناب عمران احمد خان کی باتوں پر عمل کر بیٹھے کیونکہ ہم تو رعایا ہیں اور شاید یہ بھی عمران احمد خان صاحب نے یو ٹرن لے لیا ہو۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہم تو رعایا ہیں۔۔۔۔۔
اپنے حلقے کے تمام ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور رکن سینٹ کیساتھ ساتھ افسر شاہی کے اعلیٰ حکام سے انتہائی معذرت کیساتھ کہ اگر انکی شان میں کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو۔۔ ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو رعایا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور واقعی حق بنتا ہے کہ زبیر بھٹہ نے ووٹ کا صلہ جام پور ضلع کا نعرہ لگا کے اور یاداشت دکھا کے بہت بڑی غلطی کی ہے اس لیئے اس پر صرف پرچہ ہی نہیں غداری کا مقدمہ ہونا چاہیئے کیونکہ ہم تو رعایا ہیں اور اسے ملک بدر کر دینا چاہیئے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے حاکموں ,گودوں ، سرداروں کا کوئی وفادار اسے مزید تکلیف ہی نہ پہنچا دے کیونکہ ہم تو رعایا ہیں اور ویسے بھی سوچ بچار کی جارہی ہے کہ کشمیر ڈے پر جن نوجوانوں نے اپنے جام پور کی محرومیوں کے لیئے بات کی ہے انکے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیئے بے شک بہانہ یہ سہی کہ انہوں نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے مگر میرا سوال ہے کہ ان 72 سالوں میں یہ سب کچھ کر کے ہم نے کشمیر یا کشمیریوں کے لیئے کیا کیا ؟ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ہم تو رعایا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Email: wasnikhalil@gmail.com
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ