کشمیر کو ایک جانب سے بھارتی ریاستی دہشت گردی، جبر واستبداد کا سامنا ہے تو دوسری طرف پاکستان ہے جہاں یوم کشمیر کے ٹیبلو ہیں، آزادی کشمیر کے دعوے ہیں، ساتھ نبھانے کے وعدے ہیں۔
بہت سے پاکستانی ہیں جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کو دوغلا پن سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ کشمیریوں کو جو سبز باغ ہم نے دکھائے ہیں انہیں دیکھتے دیکھتے کشمیر کی تین نسلیں بوڑھی ہو چکی ہیں۔ یعنی خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم کشمیر پورے جوش و جذبے سے منایا گیا، بچوں نے کشمیری لباس پہن کر ٹیبلو پیش کیے، خواتین نے کشمیر کے جھنڈے لہرائے، جوانوں نے آزادی کشمیر کے نعرے لگائے۔ آئی ایس پی آر نے کشمیر کے معاملے پر دل کو گرما دینے والا ایک اور نغمہ جاری کیا۔ وزیر اعظم نے بیان کے ذریعے عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑا۔ حکومتی ارکان، وزیروں، مشیروں نے بیانات دے کر کشمیری قوم پہ بڑا احسان فرمایا۔
اپوزیشن نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی خاطر کشمیر ڈے کی مناسبت سے منہ دکھائی کرائی۔ کشمیر حریت، کشمیر کونسل، کشمیر فورم، کشمیر اتحاد، کشمیر فرنٹ، کشمیر فلاں، کشمیر فلاں کے نام سے بنی نئی پرانی رنگ برنگی جماعتیں جاڑوں میں دھوپ سیکنے سڑکوں پر نکل آئیں۔ سوشل میڈیا پر سیلفیاں لگائی گئیں، ہاتھوں سے زنجیر بنائی گئی۔
کشمیر کے زخموں کو کریدنے کا یہ تہوار میرے جیسوں کے لیے منانا اتنا آسان نہیں جنہیں سوال کرنے کی عادت ہے۔ بتائیں ان نغموں، ڈراموں، تقریروں، ٹیبلو اور میلوں ٹھیلوں کے علاوہ اب تک عملی سطح پر پاکستان کشمیر کے لیے کیا کچھ کر سکا؟ اگر جواب یہ ہے کہ پاکستان ان سب کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے تو کم از کم جھوٹے خواب دکھانا تو چھوڑ سکتا ہے یا وہ بھی نہیں؟ سبز باغ دکھانا تو چھوڑ سکتا ہے یا وہ بھی نہیں؟ جذباتی نعروں کی گونج میں بلند بانگ دعوے کرنا تو چھوڑ سکتا ہے یا وہ بھی نہیں؟
گذشتہ سال اگست سے بھارت کا زیر انتظام کشمیر ایک جیل بنا ہوا ہے، کشمیر پر جو قیامت ٹوٹنا تھی وہ ٹوٹ بھی چکی۔ اب وہاں مسلمان آبادی کی نسل کشی کے پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔ ایک پوری قوم کا صفایا کرنے کا پلان زیر غور ہے۔ اگر تو واقعی کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے تو بھائی یہ کیسی شہہ رگ ہے جسے کاٹا جا رہا ہے مگر ہم تو ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔
’دنیا کے منصفوں‘ کو کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سناتے سناتے کب ہمارے کان سن ہوگئے، کسی کو خبر نہ ہوئی۔
اگر تو پاکستان کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت آزادی دلوانے میں سنجیدہ ہے تو پاکستان نے ڈپلومیٹک فرنٹ پر اب تک کون سی جدوجہد کی ہے؟ کن دوست ممالک کو کشمیر کے معاملے میں ساتھ لیا ہے؟ عالمی سطح پر اس معاملے میں کیا ہلچل ہوئی ہے؟ بھارت کے اکھنڈ رویے کو کچلنے کے لیے کن پاور فل ممالک کو انگیج کیا گیا؟
اور اگر مسئلہ کشمیر کا حل ہتھیاروں کے استعمال میں ہے تو فیصلہ کریں کہ یہ ہتھیار کب کیسے اور کہاں استعمال ہوں گے۔ قوم کو یہ بھی بتائیں کہ بزور طاقت کشمیر کو آزاد کرانے چلے تو کن کن حوادث و آفات کا سامنا ہوگا۔
کشمیر کاز کی اس مبہم سیاست میں گلگت بلتستان جس بری طرح متاثر ہوا وہ تو قصہ ہی الگ ہے، مگر ہماری کبھی انتہائی سرگرم اور کبھی ٹھنڈی پڑتی کشمیر پالیسی کا سب سے زیادہ نقصان تو خود کشمیر کو ہوا ہے۔ ماضی میں ’جہاد کشمیر‘ کی شکل میں پاکستان کا عمل دخل کشمیریوں کی مقامی جدوجہد پر بیرونی امداد کا ٹھپہ لگا گیا حالانکہ آج بھی کشمیری بغیر کسی پاکستانی یا بیرونی امداد کے بھارتی فوج سے نبرد آزما ہیں۔
کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے کردار پر ڈھیروں سوال اٹھا کر بھی میں سوچتی ہوں کہ کشمیریوں کے پاس ہمارے وعدوں پر جیے جانے کے سوا دوسرا آپشن بھی کیا ہے؟ کشمیری پاکستان کے سچے جھوٹے دعوؤں پر اعتبار کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟
کشمیریوں کا جینا حرام ہے مگر کشمیر کے نام پر کھانے والے کئی دہائیوں سے اپنے بجٹ کو حلال کر رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ کشمیری جائیں بھی تو جائیں کہاں؟ یہی چند ایک نعرے ہیں جو پاکستان سے ان کی آزادی کے لیے گاہے بگاہے لگ جاتے ہیں، فی الحال تو انہیں ہر سال پانچ فروری کو یوم کشمیر کا منایا جانا ہی غنیمت لگتا ہوگا۔
میں خود کو اگر سری نگر کے کسی کرفیو زدہ علاقے میں بیٹھے ہوئے سوچوں اور یہ بھی سوچوں کہ میرا بھائی بھارتی فوج کی حراست میں ہے اور یہ بھی سوچوں کہ بھارتی فوج کشمیری خواتین کے استحصال کو بطور ہتھیار کسی بھی وقت استعمال کرسکتی ہے تو میں خود کو کشمیر میں نہیں وحشی درندوں کے کسی جنگل میں تنہا پاؤں گی۔ ایسے میں کہیں کسی ایل او سی کے پار سے اٹھتی کشمیر، کشمیر کی صدا کیا مجھے وحشت سے آزادی دلا سکتی ہے؟
ہم پاکستانیوں کے نعرے، یہ دعوے، یہ تقریریں، یہ ٹیبلو، کشمیریوں کو آزادی ہرگز نہیں دلا سکتے، مگر انہیں صرف اتنا یاد دلا سکتے ہیں کہ کوئی ہے جس کی کچھ کر گزرنے کی حیثیت تو نہیں مگر وہ برسوں سے تمہارے لیے چیخ رہا ہے، صرف چیخ رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر