کبھی کشمیر اپنے حُسن ِفطرت ، دلکش نظاروں ، سر سبز پہاڑوں، ، بلند و بالا سر سبز چناروں، جھاگ اڑاتے دریاؤں ، جھلملاتی برفوں، گنگناتے جھرنوں ، شور مچاتی آبشاروں ، دل آویز موسموں، سکون و راحت، خوشیوں کے مسکن اور جنت ارضی کے طور پر مشہور تھا۔
مگر اب اُس کی پہچان یہ قدرتی حُسن نہیں، جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے، بلکہ بچّوں کی چیخیں، جوان لاشے تھامے ماؤں کی سِسکیاں، لہو روتی لاچار ممتائیں، گھروں سے اُٹھتے آگ کے شعلے، بے گوروکفن لاشیں، انسانی خون کی بہتی ندیاں،بھوک سے بے تاب ادائیں، سسکتی آہیں، ملبے کے نیچے دفن ہوتی معصوم کلیاں، جلتی بستیاں، اجڑتے محلے، جلتے مکانات، لڑکیوں کی ویران آنکھیں،جو اُن پر فوجی کیمپس میں بیتی اَلم ناک کہانیاں سُناتی ہیں، ایسی کہانیاں، جو سینے چیر ڈالیں ان سب کو ملانے سے اگر کسی چیز کی تصویر بنتی ہے تو اس کا نام ہے وادیِ کشمیر۔ یعنی مِٹتی بستیاں اور بڑھتے قبرستان، یہ ہے آج کا کشمیر۔
جب زندگی قید، سوچوں پر قفل، امید پابند سلاسل، شہروں میں قبرستان والی وحشت، گھروں میں قبر جیسا اندھیرا، مستقبل کی خبر نہ پل کا پتہ، تمام مہذب دنیا گونگی بہری، عالمی قوانین ان سے لاتعلق، جو اٹھے اسے سلادیا جائے، زبان درازی کی سزا موت ہو۔ لیکن کشمیری مسلمانوں کو خاموشی میں بھی چین نہیں ۔ یہ نکلتے ہیں اور اعلانیہ نکلتے ہیں ، کوئی پتھر اٹھتا ہے، کوئی نعرہ گونجتا ہے، یہ نہتے بھی حملہ آور ، وہ سنگینوں کے ساتھ بھی دفاعی پوزیشن پر، یہ سیب کو بھی میزائل بنا کر بھیجتے ہیں۔
باغات اور جنگلات میں موت کا رقص جاری ہے۔ مگر اس آسیب زدہ بستی کے رہنے والے آزاد ہیں، سیاہ بوٹوں اور زعفرانی راج کا ان کے دماغوں پر کوئی اثر نہیں، وہ اپنی نفرت اور محبت کا بے خوف اظہار کرتے ہیں۔ وہ فوج سے برملا نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ہر کشمیری کی زبان پر ’’پاکستان زندہ باد، بھارتی درندگی مردہ باد‘‘ اور لے کے رہیں گے آزادی کے نعرے ہوتے ہیں۔ کشمیری عوام کی تحریک آزادی اسی روز سے شروع ہو گئی تھی جب انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت16 مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا۔
ایک صدی کشمیریوں نے جدوجہد آزادی میں گزار دی۔کشمیرنہ صرف کشمیریوں کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے بلکہ پاکستان کیلئے بھی یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس شہہ رگ کو ہندو بنیا ترہتر سالوں سے زخمی کر رہا ہے بلکہ اب تو شہہ رگ کو کاٹنے کا انتظام کر رہے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شہ رگ کٹ جائے تو وجود مردہ ہوجاتا ہے۔
اتنے ظلم و جبر کے باوجود بھی کشمیر کی غیور اور بہادر عوام آج بھی بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے اسلام اور پاکستان سے اپنی بے لوث محبت کا کڑا امتحان دے رہے ہیں۔ ہزاروں شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں گرفتار ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں جاں بلب ہیں۔
اُن کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے اُنھیں معاشی طور پر مفلوج کیا جارہا ہے، میری مائیں‘میری بہنیں نوحہ کناں ہیں‘میرے بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں۔میرے نوجوان بھائی کفر کےتشدد اور گولیوں کا شکار ہوکر شہادت کے رتبےحاصل کررہے ہیں۔کشمیر کاشاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں سے شہادت نہ ہوئی ہو۔وادی جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کشمیری مسلمان وقت کے یزید کے بدترین ظلم و بربریت کا شکار ہیں ۔ لیکن کشمری گھبرائے نہیں۔ حق کے لیئے میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ امام حسین کی استقامت اور اسوہ ِ امام حسین پر عمل پیرا ہو کر اور بھر پور استقامت سے یذید ِ وقت کے سامنے کلمہ حق پڑھنے ہی سے انسان اپنی منزل مقصود کو حاصل کر سکتا ہے۔ کربلا بحیثیت مسلمان ہمیں دین کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے کا درس دیتی ہے۔ ہندو کی ظالمانہ ذہنیت کھل کر سامنے آچکی ہے۔
دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے بڑا فوجی علاقہ بن چکا ہے۔ تاہم بھارت اپنی ظالمانہ حرکات سے کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز کو ہمیشہ دبا نہیں سکتا۔ آر ایس ایس کے پیروکار اور بھارتی حکومت کشمیریوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو نازیوں نے 1930ء میں کیا تھا۔
کشمیریوں نے جس عزم اور ہمت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر عصری تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے۔ مسلسل کرفیو، ہڑتالوں ، مظاہروں اور مزاحمت کاروں کی جدوجہد نے مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ کشمیرمیں ایک طرح کی رائے شماری ہوچکی ہے۔ لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔
لیکن وقت کے اس یزید مودی نے کشمیر پرآرٹیکل 370ختم کرکے پوری دنیا کی توجہ کشمیر پر مرکوز کرادی ہے۔صرف سفارتی‘فضائی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے سے اب کچھ نہیں ہوگا۔ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب فوری فیصلے لینا ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نسل کشی کے منصوبہ پر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور ہم بے بسی کیساتھ صرف احتجاجی بیانات دیکر‘ریلیاں نکال کر اور ’’یوم کشمیر ‘‘منا کر اپنی ’’ذمہ داریاں‘‘پوری کررہے ہیں۔ اب سوچنے ‘باتیں کرنے‘احتجاج کرنے کا وقت ختم ہوچکا۔پاکستان نے بلاشبہ کشمیریوں کے لئے جاندار اور توانا آواز اٹھائی ہے۔
لیکن کشمیر کی موجودہ صورت حال جہاں پاکستان سے سنجیدہ اور متحرک سفارتکاری کی متقاضی ہے وہیں ہر پاکستانی سے بطور پاکستانی، مسلمان اور انسان کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہےکشمیر کا بچہ بچہ پاکستان کی طرف دیکھ رہاہے‘کشمیر کی مائیں اور بہنیں اپنی عزتوں کے محافظوں کی منتظر ہیں۔ افسوس کشمیر کی سرزمین پر تباہی دندنارہی ہے اور انسانیت سسک سسک کر آخری سانسیں گن رہی ہے، اور ساری دُنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہماری مصروفیات اپنی جگہ، ہماری ترجیحات اپنی جگہ ، آئیں آج یوم یکجہتی کشمیر پر عہد کرتے ہیں کہ کشمیری مسلمانوں کے لیئے، کشمیریوں کا ساتھ دینے ہم نے ہر فورم پر کشمیر کی آزادی کے لیئے آواز بلندی کرنی ہے۔ آؤ ہم سب آج سے کشمیر کے سفیر بن جائیں ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر