دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ دھرتی کےکبوترے۔۔۔ کرتب سے ہوس بازار تک

یہ کبوترے کس پنچایت سے نکالے گئے ۔ کس شکست سے دوچار ہوئے کہ مٹی کا مان اِن سے روٹھ گیا اور وطن کی آبرو رسوائی بن گئی ۔


رفعت عباس


سندھ دھرتی کی درگاہوں ، مزاروں اور مندروں کے کبوتروں اور ان کے دانہ پانی کی خیر ہو
ذرا اِن کبوتروں کی طرف بھی نگاہ جو جیتے جی راندہِ درگاہ ہو گئے ۔

یہ کبوترے کس پنچایت سے نکالے گئے ۔ کس شکست سے دوچار ہوئے کہ مٹی کا مان اِن سے روٹھ گیا اور وطن کی آبرو رسوائی بن گئی ۔ یہ ہیں وہ کبوترے جو تاریخ کے کسی چَھجے سے اڑے اور پھر بھٹک گئے ۔ عہد در عہد جلا وطنی کا ریلہ انہیں بہا کر لے گیا ۔ ان کا ساحل چھوٹا اور گردابِ بلا مقدر ٹھہرا ۔ یہ ہیں وہ کبوترے جو آدم کی توقیر اور حوا کی تکریم کھو بیٹھے ۔
ڈکھڑیں کارݨ ڄائی ہم
سولیں سانگ سمائی ہم

یہ ہیں وہ مقامی آدمی جنہوں نے کرتب کو اپنا روزگار کیا اور ہوس کے بازار تک جا پہنچے ہیں ۔ اس سوداگر معاشرے میں ان آرٹسٹ عورتوں کے کرتب کا تماشائی ان کے جسم کا خریدار بن گیا ۔ یہ تنی رسی پر چلنے والی دوشیزائیں اب تقدیر کی دو دھاری تلوار پر پائوں دھرتی اور کٹ مرتی ہیں ۔ یہ ہے وہ عورت جو رسی پر آخری بار چلی ۔ یہی ہے وہ عورت جو اپنی چکری پر کبوتر کی طرح سینہ پھلا کر گھومی ۔ شاید یہیں سے اس کا نام کبوتری اور قبیلے کا نام کبوترے پڑا ۔

جوانی میں یہی کرتب دکھانے والی ایک بوڑھی عورت نے کہا جوانی میں ہم تلوں کا تیل کھاتیں اور جسم پر لگاتی تھیں اب تو ڈالڈا کی پَلی نسل ہے ان کا جسم کام ہی نہیں کرتا

یہ ہیں ان کے گھر۔۔۔۔پیڑے
یہ ہے ان گھروں کا ظاہر
یہ ہے ان گھروں کا باطن
یہ ہے آرٹسٹ اور حسین عورتوں کی کل متاع
یہ ہے سندھ کی اجڑی بیٹیوں کا جہیز
یہ ہیں وہ راجکماریاں
جو وقت کی یدھ میں نہ سَتی ہوئیں نہ زندہ بچیں ۔
؎ دیکھو مجھے جو دیدہِ عبرت نگاہ ہو۔۔۔۔۔
میری سنو جو گوش ِ نصیحت نیوش ہو

اِن پیڑوں کو غور سے دیکھو
یہ پیڑے بھی ننگ ونموز اور شرم وحیا کی چادر سے بنے ہیں لیکن ان کے پیچھےحوا کی جائی اور سندھ کی بیٹی کا بیوپار ہے ۔ اِن بِیڑوں کے عقب میں دیے نہیں حوا کی بیٹیوں کے جسم روشن ہیں ۔ یہ عشرت کا نہیں ماتم کا مقام ہے ۔ یہاں شامِ طرب نہیں شبِ الم طاری ہے ۔ ان مردانہ کبوتروں کو دیکھو کہ دکھ کی پرچھائیں ہیں ۔ ان زنانہ کبوتروں کو دیکھو کہ افسردگی کا سایہ ہیں ۔
اِن کی خوشی
اِن کی مسکراہٹ
اِن کا کھلکھلا کے ہنسنا
اِن کا رنگدار لباس
اِن کا اپنا ہی جشنِ مرگ ہے ۔

ان کبوتروں کا کرتب ان کی طاقت تھا ۔ ان کا تنی رسیوں کا انگاس ان کا توازن تھا ۔ ان کی چکری ان کی شان تھی ۔ سب کچھ کھو گیا ۔ اب نہ انگاس ہے نہ چکری ۔ ان کی کرتب گاہیں ان کے تن کے چراغ سے روش ہیں ۔ یہ ہے وہ عورت جس نے بتایا کہ اب وہ انگاس ماضی کا حصہ بن گیا ۔ اب صرف اپنے جسم کا انگاس اور چکری ہے اور خریدار کیجے ہیں ۔ یہ کیجے ان کبوتروں کے ہاں انتہائی قابل احترام ہیں ۔ یہ کبوترے کیجے سے عہدِ وفا نبھانے میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔ ایک عورت کی شادی ہوجائے یا دوران ِ معاہدہ وہ مر جائے تو یہ دوسری لڑکی کیجے کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ کبوترے اپنی نکھ میں شادی نہیں کرتے . شادی کے بعد کوئی کروڑ روپیہ بھی دے گا کبوتری اپنے خاوند سے دھوکا نہیں کرے گی . شادی کے بعد وہ مکمل پتی ورتا گھریلو عورت بن جاتی ہے

یہ کبوترے سندھ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اب ان کو زمیندار دیہاتوں میں رہنے نہیں دیتے اب یہ شہروں کی کچی آبادیوں میں مقیم ہیں ۔ یہ میر پور خاص میں ہوں یا بدین میں ان کی تدفین امر کوٹ کے قبرستان امید علی لاشاری میں کی جاتی ہے ۔ یہ مردے کو جلاتے نہیں دفن کرتے ہیں یہ مخصوص دن پہ قبرستان جاتے ھیں اپنے عزیزوں کی قبروں کے سرہانے چہوٹا سا گڑھا کھود کر اس میں شراب انڈیلتے ہیں ان کا ایقان ہے کہ وہ شراب قبر میں دفن آدمی پیتا ہے . تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قبیلہ امر کوٹ سے دیگر علاقوں تک پہنچا ہے ۔ کہتے ہیں کہ مومل تک پہچنے سے روکنے کے لیئے جو ٹکساٹ بنا ہوا تھا وہ ان کبوتروں نے بنایا تھا طویل مدت تک یہ قبیلہ ناٹک اور ناچ کا امین رہا اور پھر تھیٹر اور سینما کی چکا چوند نے اِن کے فن کو گہنا دیا اور انہیں وقت کی منڈی نے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ان کے پاس حسن و جمال کی متاع تھی ۔

اس عورت نے بتایا کہ ہمارے بچے بھی سکول جاتے ہیں لیکن ایک دن مقدر کے اسی کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ شاید اس کاروباری سماج میں انہیں یہی کردار ادا کرنا ہے ۔ شاید اس ساہورکار دنیا میں انہیں اپنے جسموں کی کھپت منڈی تک پہچانی ہے ۔ انہیں اپنے ہی جسموں کا بنجارہ بنا دیا گیا ہے ۔ اِنہیں ان شور زدہ کھیتوں کے کنارے بٹھا دیا گیا ہے جہاں صرف ہوس کی کاشت ہے ۔ اب یہی جنس کی کاشت اِن کا سچ ہے ۔ یہ کبوترے دیانت داری سے جنس کی فصل بوتے اور کاٹتے ہیں ۔ انہوں نے جنس کی منڈی کے اصول وضع کیے ہیں ۔ یہ لین دین کے کھرے اور وعدہ نبھانے والے ہیں ۔ انہوں نے اپنے سیاہ خانہِ بے وفائی میں وفا کی شمع روشن کی ۔

دوسرا حصہ

یہ مرد کبوترے کھانا پکاتے ، کپڑے دھوتے ، گھر کی صفائی اور دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تقدیر کا تعین کر لیا ہے ۔ یہ بظاہر اسی زندگی میں خوش ہیں ۔ یہ کہاں جائیں ان کا کوئی اور سنگ یا تعلق نہ ہے ۔ یہ اسی شکستہ اسمان کے کبوترے ہیں ۔ یہ اس دھرتی کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئے ہیں ۔

(مرد کبوترے سے گفتگو)

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک روز یاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اد کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
(پس منظر میں تحت اللفظ)

اس سماج میں جہاں ہر وفاداری بکتی اور بدلتی ہے کبوتر عورت اپنے معاہدے سے وفادار ہے ۔ وہ روزمرہ کے جنسی لین دین میں کھری ہے ۔ وہ اپنے ” کیجے "کے ساتھ معاہدے میں بندھی ہے ۔ ’کیجا’ وہ ساہوکار ہے جو اس کی وفاداری کو ایک مخصوص مدت کے لیے خریدتا ہے ۔ یہ معاہدہ ایک دن سے لے کر سال بھر کے لیے ہو سکتا ہے ۔ کیجا گھر کا فرد بن کر رہتا ہے ۔ وہ اکثر اوقات گھر کے ہر فرد کا خرچہ مقرر کرتا ہے ۔ شروع شروع میں اپنا اور تعلق دار عورت کا کھانا باہر سے لاتا ہے پھر آہستہ آہستہ اسی قبیلے کے کھانے کا عادی ہو جاتا ۔ وہ بعض اوقات اپنا سب کچھ لوٹا کر جدائی کی دنیا میں کھو جاتا ہے ۔

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شِب غم گزار کے

ان عورتوں کے دل والے کیجے بھی ہوتے ہیں ۔ یہ محبت کی دنیا ہے ۔ ٰ دل والے کیجے ٰ سے کوئی معاہدہ کوئی رقم طے نہیں کی جاتی ۔ یہ ان عورتوں کی بے پناہ محبت کا اظہار ہوتا ہے اور ٰ دل والے کیجے ٰ کے ہوتے ہوئے یہ عورتیں کسی اور سے معاہدہ نہیں کرتیں ۔ ان عورتوں کے بھی دل ٹوٹتے ہیں یہ بھی زخمی کونج کی مانند کرلاتی ہیں ۔

(کیجے سے معاہدے کے بارے ایک بزرگ عورت سے گفتگو)

ایک اور بوڑھی عورت نے بتایا اب تو وہ انگاس ہی ٹوٹ گئے جن پہ چڑھ کر ہم کرتب دکھاتے تھے لیکن ہم نے ایک ٰٰٰ کیجے ٰ کی معرفت انہیں کرتب کے لیے راضی کر لیا ۔ یہ بھی اپنے ٰ کیجے ٰ کے احترام اور اس امید پر راضی ہو گئے کہ شاید اس سے ان کا فنکارانہ تعارف لوٹ آئے

یہ ہے ان کا اصل تعارف لیکن اب وہ ناٹک رہا نہ وہ دل والے کیجے ۔ نہ کرتب رہا نہ حسن و جمال کی چکا چوند ۔ یہ پَچھڑے ہوئے کبوترے مزید پَچھڑتے جاتے ہیں ۔ ان کا زوال جاری ہے ۔ ان کی تقدیر کا کھیل ان کے خلاف رچ چکا ہے ۔ یہ ناز و ادا کی حامل عورتیں اب شہروں میں بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہیں ۔ اب وقت کا پہیہ کیسے واپس گھومے؟ کون ہے ان سندھ کی شہزادیوں کا وارث ؟ شاید کوئی نہیں ، سوائے امر کوٹ کے اس امید علی لاشاری قبرستان کے جہاں کی یہ مٹی ہیں
(قبرستان کا منظر)

About The Author