سوموار کے دن ڈیرہ میں صبح سے بارش شروع ہوئی جو وقفے وقفے سے سارا دن جاری رہی اور سردی میں اضافہ ہو گیا ۔لیکن اس رَف موسم میں بھی ڈیرہ کی خواتین گیس اور بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے گھروں سے باہر نکلیں اور چوگلہ پر پہنچ کر چاروں بازار کے راستے بند کر دیے۔
یہ گھریلو خواتین سفید و کالے برقعے پہنے اورچادروں میں ملبوس مکمل پردے میں تھیں اور پورے وقار اور تہذیب کے ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بچوں کے سکول جانے اور تیاری کا وقت ہوتا ہے گیس اور بجلی نہیں ہوتی اور بچوں کو ناشتے دینے اور تیار کرانے میں دقت ہوتی ہے۔
اسی طرح شام کو جب بچوں کو کھانا کھلانے کا وقت ہوتا ہے بجلی اور گیس نہیں ہوتی اور جب بچے سو جاتے ہیں اس وقت یہ دونوں سھولتیں بہم پہنچا دی جاتی ہیں۔
گیس اور بجلی کی اس لوڈشیڈنگ نے خواتین کو مجبور کر دیا کہ وہ اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خراب موسم کے باوجود روڈ پر آ گئیں۔
ہمارے محترم AC صاحب نے وہاں پر موجود مردوں کو دھمکی دی کہ اگر آئندہ خواتین احتجاج کرنے نکلیں تو وہ سب مردوں کو گرفتار کر لیں گے۔ جبکہ وہاں پر موجود مردوں نے کہا کہ یہ خواتین خود اپنی مرضی سے لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر باہر آئی ہیں۔
ڈیرہ میں خواتین کا ظلم کے خلاف یہ پہلا مظاہرہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی خواتین ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں کیونکہ یہ ان کا جمھوری حق ہے ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب نے جب ڈی چوک پر دھرنا دیا تو اس میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی اسی طرح دوسری سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں بھی خواتین شرکت کرتی رہتی ہیں۔
اور پھر خود AC صاحب نے ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کی یقین دھانی کرائی اور خواتین پرامن طور پر واپس چلی گئیں۔ واپڈا اور گیس کے محکموں کا ناروا سلوک ڈیرہ والوں سے بہت عرصے سے جاری ہے۔
پچھلے پانچ سال صوبے میں PTI کی حکومت تھی اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی تو کہا جاتا تھا کہ چونکہ دونوں پارٹیوں کی آپس میں نہیں لگتی اس لیے مرکز کے محکمے واپڈا۔
گیس وغیرہ ڈیرہ والوں کو PTI کو ووٹ دینے کی سزا دیتے رہتے ہیں۔ اب تو مرکز اور صوبے دونوں میں PTI کی حکومت ہے تو کیا اب بھی PTI کے حکمران ڈیرہ والوں کو PTI کو ووٹ دینے کی سزا دیتے رہتے ہیں کیونکہ اس دفعہ تو سب سے زیادہ ووٹ دیے؟
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ڈیرہ کی خواتین نے جس جُرات اور بہادری کا مظاہرہ کر کے پرامن احتجاج کیا اور انتظامیہ نے بھی اس کو پرامن انداز میں حل کرنے کی کوشش کی دونوں قابل تعریف ہیں۔ بس AC صاحب کا گرفتاری والا ایک فقرہ جو سوشل میڈیا پر بہت وائیرل ہوا وہ بھی ماوں بہنوں کی عزت و احترام کی خاطر تھا ورنہ مطالبات ماننے کی یقین دھانی تو ہو گئی تھی ۔
ہماری آبادی کا پچاس فیصد خواتین ہیں اور ہم نے خواتین کو گھر میں بٹھا کر صرف کوکنگ اور کپڑے دھونے پر لگا رکھا ہے درحقیقت ہر خاتون میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے گھریلو کام کاج کے ساتھ اس ٹیلنٹ کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔
میں شروع شروع میں جب چین کے شھر بیجنگ گیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہوٹلز ۔ٹیلی کیمیونیکیشن ۔بازار کی دکانیں اور کاروبار چینی عورتیں چلا رہی ہیں اور مرد سڑکیں ۔عمارتیں۔ ڈیم ۔کھدائی کے کام میں مصروف ہیں۔
مجھے چین کی تیز ترین ترقی کا راز مین پاور کے منصفانہ استعمال میں نظر آیا۔ چینی خواتین کاروباری مسابقت میں بھی بہت سخت تھیں۔ایک دن میں مشھور دیوار چین سے نیچے اترا تو ساتھ ساتھ دو کھوکھا نما دکانیں کچھ antique بیچنے سے متعلق تھیں اور میں وہ خریدنا چاہتا تھا۔
پہلی دکان پر میں کچھ دیکھنے لگا تو ساتھ والی دکان کی لڑکی نے کچھ نئی چیز دکھانے کا اشارہ کیا میں پہلی دکان چھوڑ کر دوسری دکان چلا گیا۔بس پھر پہلی دکان والی لڑکی باہر نکلی اور دوسری دکان والی لڑکی پر پل پڑی اور دونوں باہر سڑک پر ایک دوسرے کے بال پکڑ کر لڑنے لگیں اور چینی زبان میں ۔۔
چیں چوں چاں کر کے گالیاں دینے لگیں۔ او میرے خدایا یہ کیا ہوا ؟۔خیر میں سامنے دوسری دکاندار لڑکیوں کو بلا لایا اور انہوں نے لڑائی ختم کرائی۔ پھر ایک لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی دکان کی طرف کھینچا اور دوسری نے دوسرا بازو پکڑ کر اپنی دکان کی طرف۔
اس سے پہلے کہ میرا مونڈھا اس کھینچا تانی میں اتر جاتا میں نے زور سے کہا WAIT ۔ میں اپنے بازو چھڑوا کر ایک دکان سے براس دھات کا بنا دیوار چین کا ماڈل اٹھایا اور دوسری دکان سے بھی اسی قسم کا ماڈل اٹھا کر دونوں کو پیمنٹ کر کے ستے ویاں خیراں سے ہانپتا واپس ہوٹل آ گیا۔ میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے گاوں کی عورتیں کھیتوں میں کام کرتیں۔
دوپٹے پر کڑھائی کرتیں۔کابلی واسکٹوں پر نقشی کے ڈیزائین بنا کر صدریوں کو بیچتیں۔مشین پر کپڑے کی سلائی۔کھجور کے پتوں سے مصلے پھوڑیاں اور جوتیوں پر تِلے کے ڈیزائین بنا کر روزی کا بندوبست کرتیں۔ جندری اور چھینبے کا کام مردوں کے ساتھ خواتین بھی سرانجام دیتیں۔
یہ سارے کام حکومت کی بے توجہی کا شکار ہو کر ناپید ہو گیے۔ حالانکہ تھائی لینڈ میں خود وہاں گاوں کے ایسے ہی پراڈکٹ دیکھ آیا ہوں جو اب بھی حکومت کے تعاون سے بناے جاتے ہیں اور سیاحوں کی کشش کا سامان فراہم کرتے اور زرمبادلہ کماتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین آج کی دنیا میں ہر فیلڈ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں اور ڈیرہ کی خواتین بھی کسی سے کم نہیں اب باقی رہا گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ تو بجلی اور واپڈا والے ایک دو روز کے لیے لوڈشیڈنگ روک لیں گے اور پھر پرانی روٹین پر آ جائینگے اور یہ مسئلہ پھر ایسے حل ہو گا جیسے ہمارے آٹے ۔چینی ۔گھی ۔سبزیوں کے مسائل قیمتیں بڑھا کر بڑی تیزی سے حل کیے گیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر