نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

سلمان اکرم راجہ نے کہا پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے،جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا

اسلام آباد:صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار کے وکیل رشید رضوی  نے آج دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ، جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا،حکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی۔

رشید اے رضوی نے کہا کہ دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے،پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے،

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں؟ ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آئین میں واضح ہے،سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے،نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں۔ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے،جج بھی قابل احتساب ہے۔

رشید اے رضوی نے کہا آرٹیکل 209 میں اپروچ میں تحفظ ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی،موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے،ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے،جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

رشید اے رضوی نے کہا گلاس ہارس پر شوٹ کرنے والے شوٹرز صرف دو ہیں، ایک صدر مملکت اور دوسری سپریم جوڈیشل کونسل۔ ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے،12 مئی 2007 سانحے پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیا۔ جسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا۔ وسیم اختر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ 12 مئی کو اسکی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بلاک ہوئیں۔

سندھ ہائیکورٹ کے وکیل نے کہا میں نے دیوار سے کود کر ججز کو سندھ ہائیکورٹ میں جاتے دیکھا ہے، بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے،اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں،

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا 3 نومبر کو آئین کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

رشید اے رضوی نے کہا 3 نومبر 2007 کو وہی ہوا جو 12 مئی 2007 کو ہوا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اب تو آئین موجود ہے۔

رشید اے رضوی نے کہا یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا

سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہوگئے ۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ اے آر یو یونٹ نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا،فیڈرل گورنمنٹ رولز کے تحت اے آر یو یونٹ جو ایسا اختیار نہیں تھا،صدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھا۔ اے آر یو کو آغاز میں یہ معلومات صدر مملکت کے سامنے رکھنی چاہیے تھیں۔

یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

سلمان اکرم راجہ نے کہا پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے،جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا،اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا،اے آر یو یونٹ نے انکوائری کے ذریعے ججز کے خلاف مواد تلاش کرنے کی کوشش کی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کسی جج کے مس کنڈکٹ کا ٹیکس اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 2010 میں افتخار چودھری کیس کی گائیڈ لائینز ایکزیکٹیو پر لازم نہیں ہیں۔ یہ عدالت ایگزیکٹو اور جوڈیشل کونسل کے لیے حتمی گائیڈ لائینز نہیں دے گی، طے ہے کہ ایکزیکٹیو کو ان گائیڈ لائنز کو فالو کرنا ہوگا۔

About The Author