نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سخت فیصلے۔۔۔محمود جان بابر

معاملہ شروع دن سے ہی عجیب ہے، صوبے کے سابق وزیراعلی اور موجودہ حالات میں کھیل کو اپنے حق میں موڑنے والے زیرک سیاستدان پرویز خٹک کو تو یہ یقین بھی نہیں تھا کہ وہ 2018 کے انتخابات میں اتنی نشستیں حاصل کر جائیں گے کہ دوبارہ صوبے میں حکومت بنا سکیں لیکن پھر نصیب اور ”منصوبہ بندی” نے خود انہیں بھی سرپرائز دیدیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب ابھی بی آر ٹی پر کام کا آغاز کیا گیا تھا تاکہ لوگ صوبے میں تحریک انصاف کی پہلی حکومت کے خاتمے سے پہلے کم ازکم ایک بڑا منصوبہ تو شروع ہوتے دیکھ سکیں اور یوں انہیں دوبارہ ووٹ دیں۔ یہ وہی دن تھے جب ابھی تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات میں ووٹ بیچنے کے الزام میں پارٹی کے دو درجن کے لگ بھگ اراکین صوبائی اسمبلی کیخلاف کارروائی کی تھی اور اس کی حکومت کے آخری دن کچھ ایسے حال میں گزرے تھے کہ اگر کوئی ان سے اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کا مطالبہ کر لیتا تو شاید ان کے پاس مطلوبہ نمبر بھی پورے نہ نکلتے۔ وہ دن تحریک انصاف کے حق میں اتنے اچھے نہ تھے اور پانچ سالہ حکومت کے دوران کوئی بڑی کارکردگی نہ دکھانے پر خود پارٹی کے اندر انتخابات میں جانے کے حوالے سے سراسیمگی کی کیفیت طاری تھی۔

ایسے میں کسی صحافی نے پرویزخٹک سے سوال کیا تھا کہ وہ جولائی 2018 کے عام انتخابات سے کیا توقع رکھتے ہیں اور حکومت کون بنائے گا؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوسری بار کے انتخابات میں تیس تک نشستوں پر کامیابی کیلئے پرامید ہیں اور اگر انہیں یہ نشستیں حاصل ہو گئیں تو وہ کسی کیساتھ اتحاد کر کے پھر بھی حکومت بنالیں گے۔ یہ سب وہ پرویز خٹک کہہ رہے تھے جنہیں جوڑتوڑ اور کم ووٹوں کیساتھ بھی زیادہ سیٹیں نکالنے کا تجربہ حاصل تھا لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ خود ان کے بھی اندازے غلط ثابت ہوئے اور وہ اپنے اندازوں سے قریباً دو گنا زیادہ نشستوں کیساتھ ایک بار پھر اسمبلی میں بھیج دئیے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ابھی پارٹی کے اندر وزیراعلی بننے کے زیادہ اُمیدواروں کی آوازیں بلند نہیں ہورہی تھیں تاہم جیسے ہی مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی، وزیراعلی بننے کے اُمیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے لئے لابنگ شروع کردی۔ سب سے زیادہ مضبوط امیدوار پرویز خٹک اور دو دن پہلے ہی وزارت سے ہاتھ دھونے والے عاطف خان تھے۔ عمران خان کی باڈی لینگویج اور عاطف خان کا اعتماد بتا رہا تھا کہ اس بار وزارت اعلی عاطف خان کے حصے میں آئے گی۔ تاہم پرویزخٹک نے خود کو وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر ہوتے دیکھ کر یہ شرط رکھ دی کہ اگر وہ نہیں بنیں گے تو وہ عاطف خان کو بھی وزیراعلی نہیں مانیں گے اور یوں پرویزخٹک اور عاطف خان کا پتہ صاف ہونے کے بعد بیچ میں محمود خان کی لاٹری کھل گئی۔

پارٹی کے اندر موجود تمام گروپوں کو ان کا حصہ ملنے کے بعد محمود خان وزیراعلی بنے اور یوں آسانی سے ملنے والی حکومت پوری آسانی سے آگے دیدی گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا میں یوں آسانی سے حکومت اتنے ”شریف” بندے کو دینے کے بدلے ایک ہی چیز درکار تھی کہ حکومت کے معاملات پشاور اور اسلام آباد میں بیٹھے دو سرکاری افسروں کو چلانے دئیے جائیں اور ان کی جانب سے جو بھی لکھا آئے بس اس کو نافذ کیا جائے۔ دو بیوروکریٹس کے ذریعے حکومت چلانے کی یہ خبریں کوئی پہلی بار نہیں آئی ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی سینکڑوں بار اپنے اور پرائے سب اس حوالے سے شکایتیں کرتے پائے گئے ہیں۔

ان حالات میں ہوتے ہوتے حکومت کوئی ڈیڑھ سال تک ہی چلی کہ خود حکومت کے اندر سے ہی آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئیں کہ حکومت نااہل اور کرپٹ ہے، یہ باتیں کوئی اور کرتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ انہیں تو تحریک انصاف کی حکومت سے پرخاش ہے لیکن یہ معاملہ اُٹھانے والے پارٹی کے اپنے لوگ تھے جو اتنے معتبر تھے کہ ان کی بات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کے اعتبار کا عالم یہ تھا کہ کم ازکم عمران خان تو عاطف خان اور شاہرام کے بڑے معترف تھے، ان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ وہ کیسے ان دونوں کو ان کے کام کی بنیاد پر اپنا ہیرو کہتے تھے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اپنی حکومت کو ہدف تنقید بنانے والے تین وزرا کو وزارتوں سے ہٹا دیا گیا

واقفان حال کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا سے زیادہ پنجاب کی حالت پتلی ہے لیکن سزا صرف خیبر پختونخوا میں دیکر ایک قدرے نرم زمین کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ کسی مشکل کی صورت میں کم ازکم حکومت تو ختم نہ ہو، وگرنہ ایسی کوشش پنجاب میں کی جاتی تو حکومت کو کوئی بھی نہ بچا پاتا۔ یوں ایک بات تو واضح ہے کہ جن لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے اصولوں پر نہیں بلکہ قدرے محفوظ پوزیشن کی وجہ سے دی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں اپنے ہیروز کو ولن میں بدل کر ان کو نشان عبرت بنانے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ بظاہرکامیاب ٹھہرنے والے ہی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھی ہارنے والا بھی کامیاب قرار پاسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے لوگوں کو ڈسپلن کے نام پر پابندیوں کا نشانہ بنانے کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ اگرکوئی اور بھی اس قسم کی کوشش کا حصہ بنے گا تو وہ بھی اسی قسم کے سخت فیصلوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔

عمران خان کے قریبی دوست سمجھے جانے والے عاطف خان اورشہرام خان کو نکالے جانے سے یہ تو ثابت ہوچکا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور جب بات اپنے مقاصد کی ہو تو اس کی راہ میں آنے والا چاہے کوئی بھی ہو بچے گا نہیں۔

About The Author