نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وطن اور محبت کا شاعر :مست توکلی ۔۔۔خلیل کنبھار

ایک سرائیکی وسیب زادہ ، بلوچستان کے بلوچ اور سندھ کے تھری پیاروں کی دوستی پر ساری زندگی فخر کرئے گا۔۔۔تحریر کا مزہ لیں۔۔۔۔

شاہ محمد مری کہتا ہے کہ روزِ قیامت اس کے داہنے ہاتھ پہ اس کی مست توکلی پہ لکھی کتاب ہو گی۔ وہ سچ کہتا ہے کہ یہ کتاب خود شاہ محمد مری کے جنون کی داستان ہے۔ یہ اس کے نامہ اعمال کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں ایک ایک واقعے کی تصدیق کے لیے وہ بلوچستان کے ریگزاروں میں مہینوں چلا۔ یہ کتاب لوگوں کے سینوں میں محفوظ مست توکلی کو احاطہ نگاہ میں لاتی ہے مگر مارکیٹ سے گم ہے۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والا ماجرا ہے کہ محبت کی عظیم ترین شاعری کہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے پھوٹی ہے پاکستان میں پڑھنے کو دستیاب نہیں۔ یہ محبت کی سوغات فوٹو اسٹیٹ کے تحفے کے طور پر آگے چلتی ہے۔ یہ سمو اور مست توکلی کی محبت پر پھیلی شاعری پاکستان کا اصل چہرہ ہے جسے چھپا دیا گیا ہے۔

” سمو سندھ میں ہے، سندھ میں گرمی ہے، کہیں سمو کے ناک کی کِیل نہ تپ جائے“

سرائیکی کے خوبصورت شاعر رفعت عباس کا کہنا ہے کہ اگر سچائی کا ساتھ دیا جائے تو مست توکلی ہی پاکستان کا قومی شاعر ہے۔ یہ بھی ایک امرِ لطیف ہے کہ مست توکلی کو ضیاءالحق زمانے میں طوق علی کا نام دے کر مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

مست توکلی ماوند میں گائیں چراتا تھا۔ ایک دن اپنے دوست کے ساتھ وہ ماوند سے رسترانی جاتئے ہوئے طوفانی بارش میں گِھر گیا۔ انھوں نے ایک خیمے میں جسے بلوچ ہلک کہتے ہیں پناہ لی۔ یہی سمو کا خیمہ تھا۔ سمو نے بلوچ روایت کے مطابق انہیں چٹائی بچھا کے دی اور خود خیمے کی طنابیں کھینچنے لگی۔ سامان اور خیمہ بچانے کی جستجو میں بارش میں بھیگے بدن سے چنری اتر گئی۔ کھلے کالے بالوں، چہرے کی گلابی رنگت اور سیاہ آنکھوں نے مشترکہ جادو کیا اور مست ہمیشہ کے لیے سمو کا ہو گیا۔

(بادہ بر زلف تو آمد ’شد جھان برمن سیاہ۔ ( ہوا تمارے بالوں پہ آئی، اور جہان مجھ پر سیاہ ہو گیا )

خواہ پتھر کے بنے توے پر ہی کیوں نہ پکی ہوں

روٹیاں لذیذ تو سمو کے ہاتھوں کی پکی ہی ہوتی ہیں

اسے دیکھ کر دیوانے بے ہوش ہوجاتے ہیں

دونوں ہاتھوں میں مندریاں شعلوں کی طرح فروزاں رہتی ہیں

سمو تمہاری باتیں ایسی مٹھی ہیں جیسے سحر گاہ میں بجتا ستار

سمو کے گلے میں برگڑی نامی بلوچی ہار ہے

فلک بوس چٹانوں پہ اگی لونگ کی ٹاݪی ہے وہ

محبوب شہد و دودہ کا کٹورا ہے

مست نے محبت کی شاعری کو وطن کی شاعری بنا دیا ہے۔ سمو وطن کا استعارہ بن گئی ہے۔ سمو نسوانی جمال سے آگے بلوچستان کے حسن کی علامت بن گئی ہے۔ مست کی شاعری میں تمام تشبیہیں ’ترکیبیں اور حوالے وطن کی مٹی سے لیے گیے ہیں۔ مست اپنی شاعری میں عورت کا وکیل ہے۔ وہ سمو کا حسن اور اس کا دکھ ساتھ ساتھ بیان کرتا ہے۔ حسین سمو پانی کی تلاش میں ہے، وہ بھیڑ بکریوں کو چراتی ہوئی اپنے قبیلے کے ساتھ سندھ تک اتر آتی ہے، وہ ننگے پاؤں ہے۔

مست کی سمو کو کہیں قرار نہیں۔ مست سمو کی زندگی کا خواہش مند تھا اور اس کی محبت کے لیے لڑا۔ سخت گیر بلوچ سماج میں مست نے سمو کی محبت کا گیت لکھا۔ بلوچ معاشرے میں مست کی محبت کی قبولیت ایک معجزہ ہے جو اس کتاب میں تحریر ہے۔ بلوچستان کی عظیم دھرتی نے نہ صرف مست اور سمو کی محبت کو قبول کیا بلکہ اسے اپنا تہذیبی افتخار قرار دیا۔

مست توکلی عورتوں کو سمو کی رعیت کہتا تھا۔ مست کی خیرات ہو یا اس کی دعوت وہ سب سے پہلے سمو کی رعیت کا حصہ بھجواتا۔ اس کی محبت کی قبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگوں کے مال مویشیوں میں مست کے نام کے جانور ہوتے کہ جہاں مست پڑاؤ کرتا لوگ قطار در قطار جانور لیے پہنچ جاتے اور خیرات کرتے تھے۔ شاہ محمد مری عقیدت مندی میں بھی جرات مند ہے کہ اس نے مست کی زندگی کو بغیر کسی سنسر کے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مست جوا کھلتا تھا اور ایک بار داؤ میں اپنا لباس بھی ہار گیا۔ وہ جوے میں جیتے ہوئے بھیڑوں کے ریوڑ کے ریوڑ خیرات کر دیتا۔

مست توکلی نے حج بھی کیا دوران حج لکھی گئی شاعری میں وطن سے دوری کا احساس اجاگر ہے۔ وطن کے چشموں کی یاد اور ہرنوں کی چال اسے سفر ِ حج میں بھی نہیں بھولتی۔ وہ بلوچ معاشرے میں اتنا صاحبِ اعتبار تھا کہ چوٹی زریں کے لغاری سرداروں کے گھر کی عورتیں اس کے کپڑے دھوتی تھیں اور وہ کسی بلوچ سردار کا مہمان بنتا تو وہ سردار اپنے نصیب پر رشک کرتا تھا۔ اس کی قمیض نواب اکبر بگٹی کے ہاں کپڑے کے پوشوں میں ڈھکی رہتی اور اس کی زیارت نصیب والوں کو حاصل تھی۔

اس کی درگاہ پر زائرین کی طرف سے روز مرہ انسانی ضرورت کی چیزیں چینی، چائے گوری ریزر وغیرہ رکھنے کا رواج ہے۔ جہاں سے ضرورت مند اپنی ضرورت کے مطابق چیزیں اٹھاتے ہیں۔ 1848 کی جنگ کے زمانے میں کمسن مست توکلی قبائلی جنگوں کی آماجگاہ بنے بلوچستان کا ایک ایسا دانشور تھا کہ جس نے سب سے پہلے ان جنگوں کی مخالفت کی۔ وہ شروع میں خود ان جنگوں کا حصہ رہا لیکن بعد میں تلوار پھینک دی اور جنگ کے خلاف موثر ترین آواز بن کر ابھرا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان کا تعارف نہ کسی بلوچ سردار کی ناموس ہے اور نہ ہی کسی قبائلی جنگ کی کامرانی بلکہ اس سر زمین کا اعتبار مست توکلی اور اس کی شاعری سے قائم ہے۔

میں اس کتاب کی شاندار نثر کے سحر میں ہوں اور یہ کالم لکھتے ہوئے توقع کرتا ہوں کہ یہ کتاب پاکستان کے ہر کتاب گھر پر میسر ہو

About The Author