نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

معاشرے میں بڑھتی ہوئی ’طلاق‘ کی وجوہات!۔۔۔ شیخ خالد زاہد

مسائل اس نہج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ انکا حل سوچنے کی بجائے وقتی چھٹکارا حاصل کرنا زیادہ موثر ثابت سمجھا جاتا ہے

طلاق ایک ایسا لفظ ہے جسے ادا کرنے سے طلاق وہ عمل ہے جو خدائے بزرگ و برتر کے ناپسندیدہ ترین اعمال میں سے ایک ہے لیکن جائز قرار پایا ہے ۔

ہم اپنی سی کوشش کرینگے کہ بغیر شرعی حدوں کو چھوئے مضمون کے عنوان کا احاطہ کریں ۔ ہ میں قرآن پاک بچپن سے کسی کے دار فانی سے کوچ کرجانے کے بعد اورشادی والے گھر میں مایوں سے پہلے قرآن خوانی میں پڑھنے کیلئے پڑھایا جاتا رہا ہے ۔

ایک ایسا بھی وقت تھا جب اس بات پر فخر محسوس کیا جاتاتھا کہ قرآن خوانی میں انکا بچہ یا بچے بھی قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ قران خوانی کا واضح مقصد صرف اور صرف ثواب کا حصول بھلے سے مرنے والے نے ساری زندگی قرآن کو کھول کرنہ دیکھا ہو ۔

قرآن پاک کو ہم نے عدالتوں میں کٹہرے میں کھڑے ہونے والوں سے بیان لینے سے قبل اس پر ہاتھ رکھ کر سچ کہنے کاعہد کرتے دیکھا ہے ، شادی میں لڑکی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنا بھی لازمی قرار پایا اور کچھ عظیم لوگ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے بھی قرآن کا سہارا آج بھی لیتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔

تصدیق یا گواہی کی کوئی ضرورت نہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت ہر مسلمان کیلئے باعث برکت ہے ۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کیمطابق ’قرآن یاتو آپکے حق میں گواہی دیگا یا آپکے خلاف گواہی دیگا‘ ۔

قرآن عربی زبان میں ہے ہم نے انگریزی میں کئے گئے قرآن کے ترجمعے کو پڑھا لیکن ہم بے عمل رہے اور ہم اپنی اپنی مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم پڑھ رہے ہیں لیکن بے عمل ہی دیکھائی دیتے ہیں ۔

کہیں اسکی ایک وجہ یہ تو نہیں کہ ہم قرآن کیساتھ قائم ہونے والے تعلق کی وجہ سے کسی تکبر کا شکا ر ہوگئے ہوں کیونکہ ذرہ برابر بھی تکبر اللہ رب العزت کو پسند نہیں ہے اور یہ وہ عمل بنا ہوا ہو کہ ہمارا نیک عمل بظاہر تو دیکھا جاسکتا ہو لیکن روح تک رسائی نہیں پا رہا ہو ۔

بیشک اللہ غفور رالرحیم ہیں اور نکتہ نواز بھی ہیں لیکن تکبر کرنے والے کو اپنے قرب سے باز رکھتے ہیں پھر اپنے کلام کی سمجھ کیسے عطاء کردینگے ،اہل نظر اس کا عملی نمونہ دیکھتے آرہے ہیں ۔

اللہ اپنی تخلیق کے روئیں روئیں سے بہت خوب واقف ہے ۔ اشرف المخلوقات بنا کر کرہ عرض کو ہر اس نعمت سے سجایا جس کی طلب بوقت تخلیق خاک مجسم میں گوندہی تھی ۔

عرب جن کی مادری زبان عربی ہے اور عربی زبان بولنے اور سمجھنے والے قرآن کی اہمیت اور اس میں راہ ہدایت کو بہت اچھی طرح سے سمجھے ہوئے ہیں اورممکنہ حد تک عمل پیرا ہونے کی بھی کوشش کرتے ہیں ،عرب میں چور کہ ہاتھ آج بھی کاٹے جاتے ہیں اور سزائے موت سرقلم کر کے دی جاتی ہے اور اسطرح سے قرآن میں درج قوانین کو من و عن نافذ کیا گیا ہے ۔ جو اس بات کی گواہی ہے کہ وہ قرآن کو کتنا سمجھتے ہیں ۔

بچپن سے ہی قرآن میں دئیے گئے احکامات کو نا صرف ثواب کیلئے پڑھتے ہیں بلکہ انہیں بخوبی سمجھتے بھی ہیں ۔ بچہ یا بچی ان تمام احکامات سے بخوبی واقف ہوجاتے ہیں جن کے لئے دیگر زبانوں میں تراجم اسطرح سے واضح نہیں کئے نہیں جاسکتے ۔

جیسا کہ بچیوں کیلئے مخصوص ایام کے حوالے سے آگاہی قرآن خود فراہم کر رہا ہے بلوغت کو پہنچنے والوں کی نشانیاں واضح کر رہا ہے ، قرآن بتا رہا ہے کہ لین دین کرتے وقت گواہ بنالو، وراثت کی تقسیم کس طرح سے کرنی ہے ، محرم نا محرم کون ہیں ، شادی بیاہ اور طلاق کے حوالے سے باقاعدہ اور واضح دلائل کیساتھ پیش کر رہا ہے ۔

بنیادی معلومات کے بعد حسب ضرورت اپنے بڑوں سے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے ۔ یقینا یہ ایک عمل بہت سارے کسی بھی نوعیت کے گناہوں سے بچانے میں اہم ثابت ہوگا ۔

یہ نا صرف عربی زبان کے جاننے کا فائدہ ہے بلکہ یہ عربی بولنے والوں کے درمیان رہنے کا بھی ایک دینی اور دنیاوی اعتبار سے بہترین فائدہ ہے ۔

جیساکہ ابھی تک موضوع پر کچھ نہیں کہا گیا جسکی وجہ یہ تھی کچھ ایسی وضاحتیں پیش کی جائیں جن سے ذہن پر پڑی گرد کو جھاڑا جا سکے اور قرآن اور عربی زبان کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جاسکے ۔

اللہ تعالی نے قرآن میں دیگر احکامات کی طرح نکاح کے حوالے سے بھی چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے ۔ یہاں یہ دھیان میں رکھیں کہ عربی زبان سمجھنے والی بچی کو یہ بات قرآن پڑھنے میں سمجھ آگئی ہوگی اور اسکے ذہن میں یہ بات بطور اللہ کا حکم بیٹھ گئی ہوگی اب جب اسکی شادی ہوگی تو اسے شائد کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ مرد کے کونسے عقد میں جا رہی ہے ۔

اس طرح سے معاشرتی پریشانی کا ایک بڑا مسلۃ احکام خداوند کی پابندی کرنے سے خود بخود حل ہوتا دیکھائی دیتا ہے ۔

اس عمل کی ایک اور بڑی بہترین وجہ طلاقوں کا کم سے کم ہونا بھی ہے جب مد مقابل یا موازنہ موجود ہوتو کارکردگی میں بہتری پر ہروقت کام جاری رہتا ہے ۔

اگر تھوڑا دھیان دیا جائے تو گھریلو مسائل پر قابو پانا آسان ہوتا دیکھائی دیتا ہے ۔ ایک اندازے کیمطابق معاشرے میں بے راہ روی کا رجحان بھی کم سے کم ہوسکتا ہے ۔

اس کے برعکس اب ہم حقیقت پر مبنی معاشرتی تصادم پر نظر ڈال لیتے ہیں اورمذکورہ معاشرے سے تصادم کیلئے ہم اپنا معاشرہ لیتے ہیں گوکہ دونوں ہی اسلام کے ماننے والے ہیں لیکن زبانوں کی تقسیم نے معاشرتی اقدار کو مکمل طور پر بدلا ہوا ہے ۔

یوں تو ایسا تقریباً دنیا کے ہر مسلم ملک کا معاشرتی ڈھب ایک دوسرے سے بہت حد تک مختلف ہے لیکن اسلام اپنے آپ میں ایک مکمل دین ہے جوکہ کسی بھی قسم کی تفریق سے باز رہنے کا جواز بنتا ہے ۔

لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔ دنیا کہ ہر کونے کا مسلمان اپنے اپنے معاشرتی طرز پر اسلام کو لے کر چل رہا ہے ۔

اب عرب معاشرے میں اندرونی طور پر کیا ہورہا ہے اور دنیا کی تنکنیکی جدت انکے اقدار اور معاشرت پر کتنا اثر انداز ہورہی ہے، جاننا ابھی تھوڑا مشکل ہے لیکن قوی امکان ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے کہ دنیا عربوں کی معاشرت تک بھی رسائی حاصل کرلے گی کیونکہ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت، کھیلوں کے مقابلے براہ راست دیکھنے کی اجازت اور سنیما گھروں کا کھلنا بہت تیزی سے معاشرت پر سے پردہ اٹھانے کے اقدامات ہی ہیں ۔

دنیا تو سماجی میڈیا کے ذریعے وہا ں تک پہنچ چکی ہے لیکن ابھی یہ لوگ پوری طرح سے کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے خاندانوں کو اسلامی قوانین کے کسی حد تک پابند کئے ہوئے ہیں ۔ عرب دنیا سے باہر نکلتے ہیں اور کسی اور معاشرے میں جھانکنے کی بجائے اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں یہاں ہمارے معاشرے میں جہاں طلاق کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور خاندان کے خاندان اس کی وجہ سے تباہ و برباد ہو رہے ہیں ، معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہیجانی کیفیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ۔

لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ ایک کے بعد دوسری شادی اور دوسری کیبعد تیسری شادیوں کے سلسلے بھی چلتے دیکھائی دے رہے ہیں لیکن اس سارے عمل کو بہت معیوب سمجھتے ہوئے زیر بحث نہیں لایا جاتا( چار شادیوں والی بات کو ذہن میں رکھیں ) ۔

اگر ہم اس حوالے سے تھوڑا غور کریں تو ہ میں مغربی معاشرہ اس ڈھب پر چلتا دیکھائی دیتا ہے ۔ دوسری طرح میڈیا کی شتر بے محار آزاد ی نے تو رہی سہی کثر پوری کردی ہے ۔ ماضی میں بھی گھرکسی اور سے شناسائی کی بھینٹ چڑھتے ہونگے لیکن جس بری طرح سے آج ان خبروں کی نشر و اشاعت کی جاتی ہیں تو سوچئے کہ ان بچوں نوجوانوں پر کیا اثر پڑ رہا ہوگا جو ابھی نئے نئے معاشرے کو سمجھنا شروع کر رہے ہیں ۔

پھر ڈراموں اور فلموں کو کیسے نظر انداز کیا جائے جنہوں نے پیسہ بنانے کی دوڑ میں اپنے تاریخی کارناموں کو ز میں بوس کرکے رکھ دیا اور رخ ہواءوں کا جدھر ہے ادھر کہ ہم ہیں کی روش اختیار کرتے ہوئے وہ سب کچھ جو خاص تھا عام کرنے میں اپنا کردار اداکرنا فرض سمجھ لیا اور مغرب کی طرز پر گامزن کرنے کیلئے رہنمائی فراہم کرنا شروع کردی گئی ۔

آدمی عورت کی زلف کا آسیر ہوا تو عورت مردکی دولت پر مرمٹی یہ دونوں بھول گئے کہ معاشرے پر انکے عمل سے کیامنفی اثرات مرتب ہونے والے ہیں انکے بچے اس فیصلے سے اپنے قرب و جوار میں کیسے جگہ بنائینگے ۔ ایک شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والا ڈرامہ جسکا مرکزی خیال متذکرہ طرز پر ترتیب پایا ہے معاشرے میں دیکھتے ہیں کسی تبدیلی کا عمل انگیز بن پائے گا ۔

ہماری بدزبانی یا تلخ کلامی بھی گھروں کے نظام کو برباد کرنے کا اہم جز ہے اور یہ دو طرفہ عمل ہے اگر مرد بد زبان ہے تو جواباً عورت بھی تلخ کلامی سے گریز نہیں کرتی ۔

رہی سہی کثر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغرب کی جانب دیکھنے والی خواتین یہ نہیں جانتیں کے دنیا کو عورتوں کے حقوق قرآن پاک نے ہمارے نبی ﷺ کے توسط سے دنیا کو ناصرف بتائے بلکہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا ہے ۔

پاکستان میں رواں صدی کے آوائل میں میڈیا کا ایسا طوفان آیا جو چادر اور چاردیواری کو ساتھ بہا کر لے گیا اور جسے ہم نے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کی(جیسے ہم خود ان سے چھٹکارا چاہتے تھے) اور اب انکے لئے کی جانے والی کوشش قدامت پسند یا دقیانوسی سازش کہلائی جاتی ہے ۔ اس طوفان کی زد میں ہمارے معاشرتی ، مذہبی ، اور سماجی اقدار بری طرح سے متاثر ہوئیں ۔ کچھ اچھائیوں کو بھی پروان چڑھنے کا موقع ملا ۔

جیسا کہ بہت سارے ایسے رجحانات تھے جو دلوں میں تاحیات دفن رہتے تھے اور ساتھ ہی زمین بوس ہوجاتے تھے لیکن سماجی ابلاغ نے تو سارے پردے گرا دئیے فاش کردئیے اور وہ سب کچھ منظر عام پر رونما ہوگیا جو صدیوں سے پوشیدہ تھا ۔ تعلقات کی تشہیر اور تکنیکی مہارت نے ہنستی بستی زندگیا ں خراب کردیں ، بے اعتباری خوب پروان چڑھی اور گھربرباد ہونا شروع ہوتے چلے گئے ۔

ہم نے دائرہ اسلام کی حدیں خود نہیں پھلانگی بلکہ اس میں ان خرافات کو داخل کرلیاجنہوں نے اس دائرے میں داخل ہوکر دائرہی ختم کر ڈالا، آج ایک ہی گھر میں اسلام مختلف قسم کے غلافوں میں رکھا ہوا ہے ، نبی ﷺ سے سب محبت کا دم بھرتے ہیں لیکن یہ محبت بھی کھانے کیبعد میٹھا کھانے کی جیسی ہوکر رہ گئی ہے ۔

مسائل اس نہج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ انکا حل سوچنے کی بجائے وقتی چھٹکارا حاصل کرنا زیادہ موثر ثابت سمجھا جاتا ہے جسکی وجہ سے مسلۃ طلاق یا پھر قتل تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔

ہم بہت سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ معاشرے سے بے ایمانی کا خاتمہ کیسے کیا جائے لیکن کوئی معاشرے کی بنیادی اکائی پر بات تک نہیں کرنا چاہتا کہ سچ، رواداری ، اخلاقیات کو دائرہ اسلام میں واپس لے آءو معاشرہ خود بخود متوازن ہونا شروع ہوجائے گا ۔

عربی زبان سے لاتعلقی جہاں دیگر مسائل کی نمو میں اہم ثابت ہوئی ہے تو طلاق کے مسلئے میں بھی اسکی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں قرآن مجید فرقان حمید کا مطالعہ بطور قرآن خوانی یعنی ایصال ِ ثواب کیلئے کیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو یہ کام بھی مدرسوں سے بچوں کو بلوا کر کرادیا جاتا ہے اور بچوں کو کھانا کھلا دیا جاتا ہے یا پھر مدرس کو کچھ رقم عنایت کی جاتی ہے ۔ ہم نے علاقائی زبانوں کیلئے تو سدباب کئے ہیں لیکن عربی کی بنیادی ترویج پر گنی چنی درسگاہوں کے علاوہ کہیں کام نہیں کیا جا رہا ۔

اس بات کو حکومتی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے اور خصوصی طور پر موجودہ حکومت نے توریاست مدینہ کی طرز پر ریاست کی ترتیب کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے یہاں یہ اقدام قابل عمل ثابت ہوسکتا ہے ۔

دیگر یہ کہ اس قسم کے فیصلے میں جذباتی ہونے سے گریز کریں ہر وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ ایک خاندان کے ذمہ دار ہیں جو نسلوں تک جانے والا ہے ۔

اپنے آپ اور خواہشات کو قید میں رکھیں اور ضرورت سے زیادہ پر زور نا دیں ۔ اس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لیں آپ کا ہر عمل آپکی اولاد میں منتقل ہوتا ہے اور پھر جب کل وہ (آپکی اولاد) یہ سب کچھ کرینگے تو آپ سے برداشت نہیں ہوسکے گا ۔

آئیں اونچی جگہ خوبصورت جزدانوں میں لپیٹ کر رکھے ہوئے کلام پاک اٹھائیں اور اپنی معمول کی زندگی میں شامل کریں ، بقول اقبال;قران درحقیقت نسخہ کیمیا ہے جو زندگیا ں بدلنے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے ۔ یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنی سچی ہدایت کی لگن سے قرآن کا مطالعہ کرینگے تو قرآن ہ میں خود ان مسائل سے دور کردے گا جن میں ہم گھرے ہوئے ہیں ۔

ہمیں  دنیا جہان کے سیاسی اور معاشی بحران تو بہت اچھی طرح سے سمجھ بھی آجاتے ہیں اور ہم اپنے طور سے ان کے حل بھی ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے معاشرتی مسائل کے دائمی حل کیلئے کوئی عملی اقدام اٹھایا ہے چاہے وہ اپنے اپنے گھروں میں ہی کیوں نا ہو ، ہمارے گھر ہی معاشرے کا حصہ ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ مضمون ہذا میں بہت جھول ہوں جسکی وجہ محتاط رویہ سمجھ لیا جائے لیکن اپنی جانب سے کاوش ہے کہ اپنے معاشرے میں اس آگاہی کا بیج بویا جائے جس کی نمو معاشرے میں برداشت پیدا کرسکے اور ہمارے گھروں کو ٹوٹنے سے بچاسکے ۔

About The Author