مظفر گڑھ، پیاس اور پانی کا قصہ ہے۔تھل، جس کے دونوں پہلوؤں میں دریا اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔زمینی خنجر کو دریا آب دیتے ہیں ۔خنجر کا شمالی چوڑا دستہ تھل ہے اور جنوبی نوک پنجند میں اتر گئی ہے۔یہ سندھ ساگر دوآب کا آخری ضلع ہے ۔اورخنجر ہلال کی طرح آسمان پہ نہیں، دریاوں کے دھاروں کے درمیان آڑھا ترچھا زمین پہ روشن ہے۔خنجر کی نوک پہ کوڑا خان چمکتا ہے۔ اور تب تک چمکتا رہے گا جب تک پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ نہیں جاتے!
مظفر گڑھ کے 44 لاکھ لوگ، 6 ایم این اے اور 12 ایم پی اے 8249 مربع کلومیٹر کے رقبے پر غریب کی جھونپڑی میں مفلس کے چراغ کی طرح رکھے ہیں۔مظفر گڑھ میں کوئی 3900 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ آلودگی سے لوگ مرتے ہیں کہ زیر_ زمین پانی اور زیرِآسماں ہوا آلودہ ہے۔دنیا میں ہر جگہ پیدا ہونے والی پیداوار پر ہمسایوں کا حق اور رعایتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا کہ عوام غریب اور نمائندے مفادپرست ہیں۔تاکہ کوئی سوال نہ کرے اس لئے غریب اور جاہل عوام، اور”لاٹو”نمائندے، ریاست کی ضرورت ہیں!اور یونیورسٹیوں سے اسے ڈر لگتا ہے!!
کوڑا خان جتوئی، صید خان جتوئی کے ہاں 1800 میں پیدا ہوئے اور 1898 میں وفات پائی۔جتوئی، جاتن سے مشتق لگتا ہے۔ جاتن خان، میر جلال خان کے فرزند تھے۔جتوئیوں کی کئی شاخیں ہیں ۔ کوڑا خان ، اپنے ایک بزرگ لوہار خان کی وجہ سے لوہرانی جتوئی تھے۔عبدالقیوم خان جتوئی ان کے نامور وارث ہیں ۔کوڑا خان کا عہد سیاسی طور پر مظفر خان، سکھوں اور انگریز کا زمانہ ہے۔کوڑا خان، خان بہادر تھے۔ مگر بہت سے خان بہادروں کی قسمت میں تاریخ کا نہیں بس خاک کا رزق ہونا لکھا تھا ۔کوڑا خان سردار تھے اور ہمارے سردار کیسے ہوتے ہیں سب جانتے ہیں۔ کوڑا خان ہمارے لئے نہ سردار ہے اور نہ خان بہادر، کہ انھوں نے صدقہ و خیرات سے فیض پایا۔وہ مظفرگڑھ کے حاتم طائی اور پاکستان کے سرسید تھے۔ 1894 میں انھوں نے 82754 کنال اراضی فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دی تھی جس کا فوکس تعلیم تھا۔ دیوبند 1867اور علی گڑھ 1875 میں قائم ہوئے تھے۔ کوڑا خان نے علی گڑھ کے لئے بھی عطیہ دیا تھا۔1897کو یہ اراضی ڈسٹرکٹ بورڈ کو ملی،1960میں 247لاٹیں بنیں اور1962میں یہ لاٹیں پٹہ پر دی گئیں۔ کوڑا خان نے کئی مسجدیں بنوائیں۔ جتوئی میں ایک پرائمری سکول 1886 میں قائم کیا اور ایک ہسپتال بھی بنوایا۔جتوئی سے علی پور اور جتوئی سے شاہ جمال اور چوک قریشی تک سڑکیں ان کے عطیے سے بنوائی گئیں۔ چناب پل کی تعمیر کے لئے عطیہ اس شرط پر دیا گیا کہ لوگوں سے ٹال ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ خواجہ غلام فرید رح کے وقف کے بعد کوڑا خان کا وقف پاکستان میں تعلیم اور فلاح کا سب سے بڑا انتظام تھا۔فرید فقیر رح کی زمین پر سرکار حاتم ہے۔ سچ یہ ہے کہ مقامی آدمی سے حملہ آور کی دشمنی ہے۔ملتان کا ملہی جس نے سکندر کو تیر مارا نامعلوم ہے اور "علامہ”قسم کے لوگ اسے "ملعون ملتانی” لکھتے ہیں۔ سکندر محترم ہے اور راجہ پورس مردود ہے۔ قسم ہے زمانے کی ! دونوں مومن نہ تھے اور زمین زاد سے عناد، مذہبی نہیں نفسیاتی ہے!ہم طاقتور اور فاتح کو پوجتے ہیں اور صدیوں کی غلامی نے ہمیں کوفی بنا دیا ہے۔ہم حسین کو بس روتے ہیں اور یزید کی اطاعت کرتے ہیں!دودو سومرو، مخدوم بلاول، مظفر خان ، مولانا عبیداللہ سندھی ، احمد خان کھرل، داد فتیانہ، اور بھگت سنگھ کے نام نصاب سے کاٹ دیئے ہیں۔ اور کوڑا خان جتوئی جس نے سکول، ہسپتال، سڑکیں، پل اور مسجدیں بنائیں لوگ اس کا نام نہیں تک جانتے اور جو جانتے ہیں وہ اس کا غریبوں کے لئے دیا گیا مال نوچتے ہیں:
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ‘ہری ہری’
پھر یوں ہوا کہ حکمرانوں کے گماشتے کوڑے خان کی جائیداد پہ پلتے رہے۔اور سیاست اور مصلحت کے تابع انتظامیہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ” قانون” کی لاٹھی دیتی رہی۔ مظفر گڑھ کے بانی مظفر خان کے ہم نام، ایک دھان پان آدمی، مظفر خان مگسی نے عدالت سے رجوع کیا اور 25 سال بعد 2018 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، ثاقب نثار کی عدالت سے مظفرگڑھ کے لوگوں کے حق میں فیصلہ لے لائے۔ کہ ٹرسٹ بنے گا ۔ سیشن جج بلحاظ عہدہ سربراہ اور ڈپٹی کمشنر، ٹرسٹ کے سیکرٹری ہوں گے۔کس کو معلوم تھا کہ دو مظفر اور ایک شعیب ایک صہیب ، چار چراغوں کی صورت جامعہ کے چار کونوں میں روشن ہوں گے اور جامعہ عمران اور بزدار کے ناموں سے جگمگائے گی اور روش روش خلق_ خدا کے چراغ ہوں گے۔اور غریبوں کے بچے اقرا سے چراغوں کی لو اونچی رکھنے کو دن رات محنت کریں گے اور پاکستان کا نام اونچا کریں گے !
کوڑا خان ٹرسٹ کے سربراہ ضلع کے سیشن جج ، صہیب رومی ہیں۔ اور وہ ایک اچھے منصف اور انسان کی شہرت رکھتے ہیں۔ ٹرسٹ کے سیکرٹری ضلع کے ڈپٹی کمشنر ، امجد شعیب ترین ہیں۔خلقِ خدا کہتی ہے کہ حالیہ تاریخ میں مظفرگڑھ میں دو ڈپٹی کمشنر ایسے رہے جنھوں نے ضلع کے لوگوں کو own کر کے فلاحی کام کئے۔ڈاکٹر احتشام انور نیک نامی کما گئے جو ان کا اثاثہ ہے اور امجد شعیب کے بارے میں jury is out اور وقت فیصلہ کرے گا۔لیکن ان کا دفتر غریبوں سے بھرا رہتا ہے۔ مظفرگڑھ میں اس وقت بڑے منصف اور بڑے ضلعی افسر شعیب اور صہیب ہیں اور علامہ اقبال رح کا شعر ہے:
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
مظفر گڑھ کو ایک شعیب اور صہیب میسر ہیں! کیا جانئے کیا ہو!! مگر بہ طور سربراہ صہیب رومی کا کردار زیادہ قائدانہ اور dynamic بنتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ان کا عدالتی عہدہ ان کو زیادہ ازادی عمل دیتے ہیں۔”خبری” کہتا ہے ایک شعیب نے صہیب رومی کو خط لکھا ہے کہ وہ کوڑے خان یونیورسٹی کے قیام کے لئے مناسب اقدامات فرمائیں ۔مجھے علم نہیں کہ کوڑے خان ٹرسٹ کے موجودہ سربراہ اپنے نام کے ساتھ رومی کیوں لکھتے ہیں۔ لیکن دنیا کے سبھی رومی، قونیہ کے درویش جلال الدین محمد رومی رح کی نسبت سے ہمارے محبوب ہیں۔ رومی کے مرشد شمس تبریزی تھے۔ ولیم سی چٹک کی کتاب ” Me and Rumi” میں شمس نے اپنے مرید رومی کا موازنہ شیخِ اکبر، ابنِ عربی سے کرتے ہوئے کہا کہ ابن عربی ایک پہاڑ ہے مگر رومی کے مقابلے میں وہ کنکر ہے اور رومی موتی ہے۔عشق و مستی کے امام، رومی شعر و شاعری کے علاوہ درویشوں کے رقص، سلسلہ مولویہ اور علم کے آدمی تھے۔اس لئے رومی نام کے لوگوں سے ہمیشہ حسنِ ظن رہتا ہے !
پسماندہ ممالک میں حکمرانوں کے لئے اقتدار کی مہلت مختصر ہے۔تھوڑے سے وقت میں انھیں اچھے کاموں سے تاریخ میں مقام بنانے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے عرصہء اقتدار میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں یونیورسٹیاں بنا کر تاریخ میں امر ہوئے ۔عمران خان اور عثمان خان بزدار تاریخ میں کوڑے خان جتوئی یونیورسٹی بنا کر پاکستان کے مرکز اور دل مطفر گڑھ زندہ رہ سکتے ہیں۔علم کے علاوہ باقی سب فنا ہوتا ہے!! اور یونیورسٹی کے لئے کوئی 40 کروڑ روپے کی خطیر رقم کوڑے خان جتوئی ٹرسٹ کے پاس ہے۔ ہزاروں کنال زمین میسر ہے۔ٹرسٹ کے امانت داروں( Trustees) میں کام کرنے کا جذبہ موجود ہے اور ایک ادارہ ساز کے طور پر عمران خان شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے معمار سے وزیرِاعظم کی کرسی پر آئے ہیں۔ عثمان خان سے وسیب کو بہت سی توقعات ہیں۔ اور یہ کام انھیں جلدی کر دینا چاہئے ۔مظفر گڑھ کے لوگوں کی قسمت کے علاوہ یونیورسٹی بننے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے!! مظفر گڑھ کے بطل _ جلیل نوابزادہ نصراللہ کا ایک شعر دیکھئے:
وقت نے دی ہے تمھیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نفسا! آج کی رات
عمران خان اور عثمان خان تمام اسباب اور وسائل کے باوجود یونیورسٹی نہیں بناتے اور شبانی بھی کلیمی تک کے دو قدم نہیں اٹھاتی، تو ہم کیا کر سکتے ہیں!ہم صدیوں مونجھ سے مزاحمت کرتے آئے ہیں ۔ دریاوں کے کنارے پیاسے مرے ہیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبے ہیں۔انگاروں پہ ننگے پاؤں ناچ کر اپنی بے گناہی ثابت کی ہے۔ہم خواجہ فرید رح کی کافیاں گاتے ہیں ، خوش رہتے ہیں۔اذیت کی ٹھنڈی لمبی راتوں کو قصے کے رتجگے سے آنچ دیتے ہیں۔پریاں بیاہ لاتے ہیں، اپنی بادشاہی قائم کرتے ہیں، کہانی میں زندہ رہتے ہیں ۔اپنی مٹی پر گندم کے سنہری خوشے اور کپاس کے سفید گلاب اگاتے ہیں اور جب تھک جائیں تو اسی مٹی کی چادر اوڑھ سو رہتے ہیں اور "حشر” ہونے اور حشر اٹھنے کا انتظار کرتے ہیں!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ