پاگل کتوں نے شہر میں انت مچایا ہوا ہے، لوگوں کا جینا دو بھر ہے۔ انکی خوفناک آوازیں سن کر گلی پر کوئی بچہ بھی نہیں نکلتا کہ کہیں کوئی پاگل کتا کاٹ ہی نہ لے۔
رانی بیٹی ! زرہ غور سے سنو ناں گلی میں کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آ رہی ہے۔۔ ماں اپنی پانچ سالہ ننھی رانی کو گود میں لٹائے سمجھا رہی تھی۔ رانی کا کھلتا ہواچہرہ کتوں کے خوف سے دھیرے دھیرے پیلا پڑنے لگا اور اپنے ننھے ہاتھوں سے ماں کے آنچل کو مضبوطی سے تھامتے ہوئی کہنے لگی۔
ماں! یہ کتے جسم پہ کاٹتے کہاں ہیں؟۔ بیٹیا رانی جو چھوٹے کتے ہوتے ہیں وہ پنڈلیوں اور پاؤں پر، جو درمیانے ہوتے ہیں وہ گھٹنوں اور رانوں پر اور جو بڑے کتے ہوتے ہیں وہ پیٹ پر کاٹتے ہیں۔
نہ ماں نہ ! میں بالکل باہر نہیں جاؤں گی، جب کتے گلی میں بھونک رہے ہوں گے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اپنی گڑیوں کو نیا چولا پہنا کر خوشی سے ابھی تالیاں بجا ہی رہی تھی کہ باورچی خانے سے ماں نے ٓآواز دی۔
رانی بیٹی! جی ماں۔ رانی یہ ساتھ والی پڑوسن انٹی شمیم کے گھر ساگ کے پلیٹ تو دے آؤ۔ہماری نئی نئی پڑوسن اور اوپر سے نئی نئی دلہن ہے۔ پتہ نہیں بے چاری کو ساگ بنانا آتا بھی ہے کہ نہیں؟ ماں کے ہاتھ سے پلیٹ لے کہ چل پڑی۔
اپنا دروازہ عبور کر کے انٹی شمیم کی چوکھٹ میں داخل ہو گئی۔ سیدھا کمرے میں گئی اور آواز دی انٹی انٹی۔ جی رانی! انکل۔ انٹی کہاں ہے؟ رانی وہ درزی سے کپڑے لینے گئی ہے۔ ٹھیک ہے انکل۔ یہ ساگ لے لیں امی نے دیا ہے۔نومی اپنے بستر سے اٹھا اور رانی کے ہاتھ سے پلیٹ لے کے میز پہ رکھ دی۔
رانی جانے لگی تو نومی نے کہا رانی زرہ ایک کام تو کر دو۔ انکل کونسا کام؟ وہ کمرے کا بلب فیوز ہے اس کو تبدیل کرنا ہے کوئی سیڑھی بھی نہیں۔ میں پلنگ پہ کھڑا ہو کے آپ کو اٹھاتا ہوں آپ نے بس یہ فیوز بلب ہولڈر سے نکالنا ہے اور دوسرا لگانا ہے۔
ٹھیک ہے انکل۔ نومی نے رانی کو اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے نیچے سے ایسے اٹھایا جیسے کوئی مزدور نیچے سے گارے کا تھال اٹھا کے اوپر بیٹھے کومستری کو دیتا ہے۔ رانی کے ہاتھ میں بلب اور نومی کے ہاتھوں میں تھال۔ رانی کی آنکھیں بلب کے ہولڈر پر اور نومی کی آنکھیں تھال پر پیوست۔
رانی کو بلب نکالنے میں دشورای ہورہی تھی۔ نومی اپنے ہاتھوں کو بار بار زور دے کر اور دبا کر کہتا کہ بالکل ایسے بلب کو دباؤ تو بلب نکل آئے گا۔ اللہ اللہ کر کے بلب لگ گیا اور رانی کو ہاتھوں کی قید سے آزادی ملی۔ نومی ہاتھوں کو گھماتے ہوئے رانی کو اپنے کَسے ہوئے بازؤں کے حصار میں دھیرے دھیرے نیچے اتارنے لگا۔
رانی کے گالوں کو چومتے ہوئے کہنے لگا، رانی بہت اچھی ہے دوسروں کے کام آتی ہے۔ تھینک یو انکل ۔ رانی واپس نومی کے گھر کہ چوکھٹ پہ رک کر گلی میں دیکھنے لگی کہیں کوئی کتا تو نہیں؟ ۔ شکر ہے کوئی کتا نہیں کہتے ہوئے اچھلتی، کودتی اور ہنستی اپنے گھر کے دروازے میں داخل ہوگئی۔ رانی صحن میں آ کر آواز دیتی ہے ، ماں ماں! دیکھو گلی میں کوئی کتا بھی نہیں اور کسی کتے کے بھونکنے کی آواز بھی نہیں۔
گھر میں داخل ہوتے بھائی کو دیکھ کر پوچھنے لگی بھیا بھیا! گلی میں کوئی کتا تو نہیں دیکھا؟ نہیں نہیں میری رانی گلی میں کوئی کتا نہیں۔ دیکھو ماں بھیا بھی کہہ رہا ہے، آواز بھی نہیں آ رہی۔ کیا میں سپارہ پڑھنے جاؤں؟ ٹھیک ہے جاؤ لیکن خیال سے اور کتوں سے بچ کر۔
چھوٹی سی چنریا کو سر پہ سجائے یسرناالقران کے قاعدے کو سینے سے لگائے باہر جاتے جاتے ماں کو فرمائش کرنے لگی، ماں! میرے آلو کے چپس ضرور بنا کے رکھنا اور ہاں بھیا دس روپے تو دے دو میں ٹاپ پاپس لوں گی۔ پیار سے دیکھتے بھائی نے جیب سے دس کا نوٹ نکالا ہی تھا کہ رانی اسکے ہاتھ سے چھینتے ہوئے دروازے کی طرف کھلکھلاتے ہوئے دوڑ پڑی۔
گلی میں دائیں بائیں دیکھا لوگ نظر آئے لیکن کتا کوئی نہیں۔ تسلی سے چل پڑی۔ پچاس پچپن سالہ دکاندار کو دس کا نوٹ دیا، دکاندار نے ٹاپ پاپس رانی کو پکڑاتے ہو ئے رانی کے ہاتھ کو تھوڑا دبا کر کہنے لگا بہت پیاری ہے میری رانی۔ دائیں ہاتھ سے اس کے گال پہ چٹکی کاٹنے لگا تو رانی جلدی سے ٹاپ پاپس کھینچتی واپس مڑی تو دکاندار نے مڑتی رانی کی پیٹھ سے تھوڑا نیچے تھپکی مارتے ہوئے کہا بڑی شیطان ہوگئی ہو۔
رانی نے گلی میں دیکھا کہیں کوئی کتا تو نہیں؟ ۔ شکر ہے کوئی کتا نہیں کہتے ہوئے ٹاپ پاپس کھاتے ہوئے مدرسے کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی۔ بھائی کا دوست کامران پیچھے سائیکل پہ آ رہا تھا۔ آؤ رانی میں سائیکل پہ مدرسے چھوڑ دیتا ہوں۔ جی بھیا۔ رانی سائیکل پر بیٹھ گئی۔ کامران دونوں ٹانگوں کو سکیڑے آہستہ آہستہ سائیکل چلا رہا تھا اور رانی سے باتیں بھی کرتا جاتا۔
کبھی کبھی زور سے ہنس کر اپنی ٹھوڑی رانی کے سر پر زور سے پیوست کرتا۔ کبھی اپنے منہ سے رانی کے بالوں کو جھنجوڑتا۔ رانی بے فکر ہو کر ایک ہاتھ میں قاعدہ پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے مزے سے ٹاپ پاپس کھانے میں مشغول تھی۔ کبھی کبھی ترنگ میں ا ٓ کر کامران سائیکل سے دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا کر پھر سائیکل پہ بیٹھی رانی کے وجود کو اپنے بازؤں کے حصار میں لے لیتا۔
رانی کامران کے آتے جاتے تیز سانس کی وجہ سے اسکے پیٹ کا اتار چڑھاؤ اپنی پشت پر محسوس کرتے کرتے مدرسہ آنے پر اتر گئی۔رانی نے گلی میں دیکھا کہیں کوئی کتا تو نہیں؟۔ شکر ہے کوئی کتا نہیں۔ ہاتھ ہلا کر شکریہ کامران بھیا کا نعرہ بلند کیا۔ مدرسہ میں داخل ہوتے ہی قاری صاحب نے آواز دی رانی ادھر آ کے بیٹھو اور کل والا سبق دہراؤ۔ جی قاری صاحب۔
رانی قاری کے دائیں طرف بچھی صف پر بیٹھ گئی۔ چھوٹی سی چنریا کو سر پہ ترتیب سے اوڑھ کر یسرنا القران کو کھول کر پچھلا سبق دہرانے لگی۔ سفید داڑھی والے قاری صاحب نے رانی کے بائیں ران پہ اپنا دائیاں ہاتھ کا پنجہ رکھتے ہوئے کہا۔
رانی نیا سبق پڑھو، ب الف با۔ ت الف تا۔ ث الف ثا، رانی دھراتی گئی، قاری کا پنجہ ہر حرف کے ساتھ مٹھی بنتا گیا اور ہر صوتی آہنگ کے ساتھ دبتا اور اٹھتا جاتا۔
کبھی رانی کے گھٹنے کو دائرے میں گھماتا جیسا کہ بولٹ سے کوئی نٹ کھول رہا ہو۔ کبھی کبھی دائیں ہاتھ سے پشت پر زور دے کر کہتا کہ تھوڑا اور اونچا پڑھو، پشت پہ زور دیتے ہوئے کبھی کبھی قاری صاحب کا ہاتھ فرش پہ بچھی صف سے بھی ٹکرا جاتا۔
رانی پوری دلجوئی سے ٹھیک ٹھیک حرفوں کے جوڑ بنا رہی تھی۔ قاری صاحب نے ا ٓخر کار خوش ہوتے ہوئے رانی کے گال پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا، میری رانی بیٹی بہت لائق ہے۔ چلو اب چھٹی کرو۔ رانی نے مدرسے سے نکلتے ہوئے گلی میں دیکھا کہیں کوئی کتا تو نہیں؟۔
شکر ہے کوئی کتا نہیں۔ چنریا سنبھالے یسرنا القران کے قاعدے کو سینے سے لگائے چلنے لگی یا سامنے اپنے ابو کے دوست انکل ا لیا س نظر آئے۔ دوڑ کہ انکل کے پیچھے پہنچ کر سلام کیا۔ انکل کیسے ہیں؟ اوووہ رانی بیٹی۔۔ جی انکل۔ انکل الیاس کے داہنے طرف چلنے لگی۔
انکل الیاس نے اپنا دائیاں بازو رانی کے دائیں کاندھے پہ رکھتے ہوئے کہا، لگتا ہے رانی بیٹی مدرسے سے آرہی ہے۔ جی انکل۔ انکل الیاس کا ہاتھ سرکتے ہوئے رانی کے پیٹ تک پہنچ چکا تھا۔ رانی کے پیٹ کو سہلاتے، دباتے اور ہنستے ہوئے انکل الیاس کہنے لگے۔
لگتا ہے رانی بیٹی بہت کھاتی ہے، پیٹ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ نہیں انکل میں تو بہت تھوڑا کھاتی ہوں۔ انکل الیا س کی ہنسی بلند ہوئی اور کَس کے رانی کو اپنی طرف بھینچ لیا۔ رانی کا ناک انکل الیاس کے ابھرے ہوئے پیٹ سے ٹکرا گیا۔
رانی کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ گھر کے دروازے پر انکل الیاس کو خدا حافظ کہنے کے بعد رانی نے گلی میں دیکھا کہیں کوئی کتا تو نہیں؟۔ شکر ہے کوئی کتا نہیں۔ گھر کے صحن میں ماں نماز پڑھنے میں مشغول تھی۔ باورچی خانے سے اپنی چپس کی پلیٹ اٹھا کر صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ کر کھانے لگی۔
اچانک اسکے کانوں میں اپنے چچازاد بھائی عرفی کی کسی کے ساتھ موبائل پہ باتیں کرتے ہوئے آواز سنائی دی۔ ادھر ادھر دیکھا کہ عرفی بھائی کہاں ہیں۔ آواز شاید چھت سے آرہی تھی۔ چپس کی پلیٹ اٹھائے جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چھت پر پہنچی۔
اسی لمحے عرفی نے موبائل پہ خدا حافظ کہتے ہوئے رانی کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ رانی مجھے چپس تو کھلاؤ۔ پہلے مجھے موبائل پہ گیم کھیلنے دو رانی بولی۔ چلو ٹھیک ہے۔
چھت پہ پڑی واحد ٹوٹی ہوئی ایک کرسی پہ بیٹھتے ہوئے عرفی نے کہا یہ لو موبائل۔ رانی کو گود میں بٹھاتے ہوئے کہنے لگا چپس والی پلیٹ مجھے دے دو، تم کھیلتی رہو میں کھاتا رہوں گا۔
عرفی اپنی ہی بات پر ہنسنے لگا۔ رانی پورے جوش سے گیم کھیلنے میں مگن تھی۔ عرفی نے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی پر چپس کی پلیٹ سجا کر رانی کی گود میں رکھ دی۔
بس بار بار خدا جانے کیوں رانی ا ٓگے سرک جاتی تو عرفی مضبوطی سے رانی کو پھر پیچھے کی طرف کھینچ لیتا۔ چند بار ایسے کرنے سے عرفی کے منہ سے ہلکے ہلکے نکلا اووووہ اوووہ اووووہ۔ نہیں عرفی بھائی ابھی ولن نہیں مرا اور نہ میں گیم ہاری ہوں ٓپ کیوں اوووہ اووہ کہہ رہے ہیں۔
میں گیم جیت کے رہوں گی رانی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ عرفی نے اپنی گود سے اٹھاتے ہوئے رانی کو کہا چلو بہت ہو گیا مجھے موبائل دو میں نے کسی سے بات کرنی ہے۔
رانی نے نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل واپس دی اور اپنی چپس کی پلیٹ عرفی سے چھینتے ہوئے کہنے لگی۔ آپ اچھے کزن نہیں۔ ہمیشہ تھوڑی دیر کے لیئے ہی مجھے موبائل دیتے ہو۔ عرفی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ رانی بے دلی سے واپس سیڑھیاں اتر تے ہوئے گلی میں جھانک کر دیکھتی ہے کہیں کوئی کتا تو نہیں؟ ۔ شکر ہے کوئی کتا نہیں کہتے ہوئے نیچے واپس آئی۔
ماں سلام پھیر کر تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ماں نے رانی کو دیکھا تو سر کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ ماں کے ساتھ جائے نماز کے کونے پہ بیٹھ گئی۔ ماں نے بسم اللہ پڑھتے ہوئے رانی کے چہرے درود پڑھ کہ پھونک ماری۔ جائے نماز کو لپیٹنے کے بعد چارپائی پہ اپنے سامنے پڑے چاولوں کے تھال سے ماں کنکر چننے لگی۔ رانی سامنے آ کے بیٹھ گئی۔ کہنے لگی۔ ماں ۔ ماں میری بات سنو ناں۔
آپ نے تو ڈرایا تھا کہ گلی میں پاگل کتوں نے انت مچایا ہویا ہے اور بھونکتے رہتے ہیں۔ میں پڑوسی کے گھر گئی، گلی پر گئی، دکان پر گئی، بھائی کے دوست کے سائیکل پر بیٹھی، قاری صاحب سے سبق لیا، ابو کے دوست کے ساتھ واپس آئی، چھت پر کزنز کی موبائیل پر گیم کھیلی۔ مجھے تو کہیں بھی کوئی کتا نظر نہیں آیا۔
مجھے تو کسی چھوٹے، درمیانے اور بڑے کتے نے کاٹا بھی نہیں۔ ماں ! آپ نے جھوٹ کیوں بولا تھا ؟ رانی نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ماں نے جواب نہیں دیا بلکہ رانی نے دیکھا ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ ماں جواب دو ناں! آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔ نہیں بیٹا کوئی ایسی بات نہیں۔ بس تیری باتیں سنتے ہوئے مجھے بھی اپنا بچپن یاد آگیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر