آئین اور قوانین ملک، نظام حکومت، اداروں کو چلانے، امن و امان، ریاست کی رٹ کو قائم رکھنے،عوام کی فلاح وبہبود،فرائض کی ادائیگی اور حقوق کے تحفظ کے لیے بنیاد ہیں آئین اور قانون کا فائدہ، موثریت، طاقت اس کے عمل درامد میں ہے. آئین اور قانون کی کتابوں میں لکھے لفظ، الفاظ سطریں، جملے وغیرہ اس وقت ہی کارآمد و موثر بنتے ہیں جب ان پر عمل درامد ہوتا ہے.
محترم قارئین کرام،، عوامی و معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے بنانے جانے والے بہت سارے قوانین ایسے ہیں. جن پر سرے سے عمل درامد ہی نہیں کیا جاتا یا پھر کہیں کہیں جزوی طور پر اور محدود و مخصوص حد تک خاموشی سے کچھ کر لیا جاتا ہے تاکہ عام لوگوں کو اس سے آگاہی نہ ہو سکے. لوگوں کو ان کے حقوق نہ مل سکیں. ایسے بے شمار قوانین ہیں جو صرف کتابوں میں بند پڑے ہیں. عوام کی اکثریت کو ان سے آگاہی نہیں ہے.
ذمہ داران کو بھی ان کا احساس نہیں ہے. یوں حق تلفیوں کا سلسلہ چلتا بڑھتا پھلتا پھولتا رہتا ہے.ویسے تو ایسے بہت سارے قوانین ہیں جن پر عمل نہیں کیا جا رہا. بعض تو ایسے معاملات بھی ہیں جن کی نشاندہی اور پیروی کے باوجود بھی شنوائی نہیں ہو پا رہی. میں سمجھتا ہوں یہ قانون کی کمزوری اداروں کی ناکامی اور حکمرانوں نالائقی ہے.
اٹھائے جانے والے حلف کے خلاف عمل ہے. شوگر کین ایکٹ، ہائی کورٹ کا فیصلہ سنگل بنیچ کا پھر ڈبل بینچ کا سالہا سال سے دھکے کھاتا پھرتا ہے. گنے کے کاشتکارکسانوں کو گنے کی مٹھاس و ریکوری کے مطابق گنے کی اضافی قیمت آج تک نہیں مل سکی. فوری فیصلے کا حامل کیس کئی سالوں سے شوگر مافیا کی چالوں کی وجہ سے سپریم کورٹ میں پھنسا ہوا ہے.
محترم قارئین کرام،،تلخ ترین حقیقت یہی ہے. ماضی کے مشاہدات و زندگی کے تجربات بھی یہی ہیں کہ وطن عزیز میں آئین و قانون بلاتفریق اور مکمل طور پر سپریم نہیں ہیں. طاقت وروں کے معاملات اور عام لوگوں کے ایک جیسے معاملات میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آج میں اپنے ضلع رحیم یار خان کے ایک عوامی درد رکھنے والے تحریک انصاف کے ایم پی اے میاں شفیع محمد لاڑ کی میڈیا سے گفتگو اور ایک اہم عوامی نوعیت کی کاوش آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں. شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا حصہ غالبا سرکاری اداروں سے بڑھ چکا ہے.
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بزنس ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے. امیر اور خوشحال گھرانوں کے بچے سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں میں ہی پڑھتے ہیں. سرکاری سکول غریبوں اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کی اولادوں کے لیے بچتے جا رہے ہیں. حکومت نے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد اور بڑھتے ہوئے کاروبار کے ساتھ ساتھ انہیں ایک قانون کے تحت کچھ غریب طلبہ و طالبات کو بھی تعلیم دینے کا پابند کیا ہے.
وہ ایکٹ قانون کیا ہے. میاں محمد شفیع محمد لاڑ نے نہ صرف اس کی نشاندہی کی ہے بلکہ اپنے ضلع رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر کو باقاعدہ مراسلہ لکھ کر عمل درآمد کرنے کا کہا ہے. گذشتہ دنوں اس حوالے سے ان کی میڈیا سے کی جانے والی یہ گفتگو آپ کے ساتھ اس امید کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کے آپ اس بیانیے کو آگے بڑھائیں تحریک کی شکل دیں. تاکہ مستحق لوگوں کو ان کا حق مل سکے.
پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے حلقہ پی پی 258 خان پور میاں شفیع محمد نے کہا کہ حکومت پنجاب کے ایجوکیشن ایکٹ 2014سیکشن 13کے تحت تمام پرائیویٹ اسکول 10فیصد مستحق بچوں کو مفت تعلیم دینے کے پابند ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا حکومت کی صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے میں نے ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان علی شہزاد کو لیٹر کے ذریعے گزارش کی ہے کہ اس ایکٹ کےتحت ضلع رحیم یارخان کے تمام پرائیویٹ اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ اپنے اسکولوں 10فیصد مستحق بچوں کو مفت تعلیم دیں جس پر ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان علی شہزاد نے یقین دہانی کروائی ہے کہ سی او ایجوکیشن کی مشاورت سے اس ایکٹ کی روشنی میں عملدرآمد کروائیں گے تمام پرائیویٹ اسکولوں کو پابند بنایا جائے گا کہ 10 فیصد مستحق بچوں کو مفت تعلیم دیں.
مجھے امید ہے کہ میاں شفیع محمد نےاس اہم ترہن عوامی مسئلے کو صوبائی اسمبلی میں بھی پوائنٹ آوٹ کیا ہوگا. اگر ابھی تک نہیں کر سکے تو یقینا آنے والے سیشن میں یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہو گا.
میاں شفیع محمد لاڑ صاحب کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ اس سے قبل بھی ایم پی اےتھے. میرے ہردلعزیز دوست اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت الفرودس میں جگہ عنایت فرمائے. خواجہ محمد ناصر رحمانی نے چاچڑاں شریف طوفانی سیلابی امدادی کیمپ کے دوران میرا ان سے تعارف کروایا تھا. بعد ازاں ایک ملاقات میں بندہ ناچیز نے میاں محمد شفیع کو نہری پانی کی تقسیم اور کچھ اصلاحات کے حوالہ سے اسمبلی میں آواز اٹھانے کی درخواست کی تو انہوں وعدہ کیا. پھر حس وعدہ اسمبلی میں تحریک التواء پیش کی مگر افسوس کے حکمرانوں نے اس پر بحث نہ ہونے دی. دیگر رکاوٹی وجوہات بھی میاں صاحب بہتر بتا سکتے ہیں.
میرا کہنا کا مقصد یہ ہے کہ انہیں اپنے بہت سارے دیگر قریبی رفقاء کے مقابلے میں عوامی نمائندہ ہونے احساس ہے. یقینا یہی احساس ہی کسی کو عوامی نوعیت کے کام کرنے اور ان مسائل پر آواز اٹھانے پر مجبور کرتا ہے.
میرے ضلع کے کپتان ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کو میاں محمد شفیع نے یقینا ایک امتحان میں ڈال دیا ہے. اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ رحیم یار خان ایجوکیشن اتھارٹی کے ذریعے کس طرح ایکٹ مذکورہ پر عمل درآمد کروا کر اپنے حق سے محروم سینکڑوں طلبہ و طالبات کو حق دلاتے ہیں. ان سے امید تو یہی ہے کہ وہ اب نشاندہی ہو جانے کے بعد پہلی فرصت میں ہی اس مسئلے پر خصوصی میٹنگ طلب کرکے عمل درآمد کی جانب آگے بڑھیں گے.
ضلع بھر کے تعلیمی اداروں کی جامع فہرست مرتب کروائی جائے گی.پنجاب ایجوکشن ایکٹ 2014سیکشن 13کے تحت ہر سکول کی تعداد کے مطابق دس فیصد کی تعداد بتائی جائے گی. اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے گا کہ کونسا ادارہ کتنے فیصد عمل کر رہا ہے کتنی تعداد میں مستحق طلبہ کو تعلیم دے رہا اور کتنی ڈنڈی مارے ہوئے ہے. یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ عوام کو اداروں کے سربراہوں اور مالکان کی سوچ اور کردار کا بھی پتہ چل سکے.
اپنے حقوق سے بے خبر سوئی ہوئی اور بے حس عوام کا بھی اب حق بنتا ہے کہ وہ اس ایشو پر اپنے اپنے علاقوں میں آواز بلند کریں. ڈپٹی کمشنر، کمشنر، وزیر تعلیم، سیکرٹری تعلیم اور وزیر اعلی پنجاب کودرخواستیں دیں. انہیں قانون پر عمل درامد کے لیے مجبور کریں. صرف ایک ایم پی اے پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں اپنے اپنے ایم پی ایز کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ جناب آپ بھی میاں شفیع محمد کی طرح بولیں ڈی سی کو خط لکھیں. صوبائی اسمبلی میں آواز اٹھائیں کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارےقانون کی پاسداری نہیں کر رہے. مستحقین کا حق دبا کرکھائے جا رہے ہیں.
میری وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار سے گزارش ہے کہ وہ اس اہم عوامی مسئلے کا سختی سے نوٹس لیں صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنرز اور ایجوکیشن اتھارٹیز کو فوری طور پر پنجاب ایجوکیشن ایکٹ2014سیکشن 13پر عمل درآمد کروانے اور واپسی رپورٹ کرنے کےاحکامات جاری کریں.گذشتہ دنوں ہم نے دیکھا کہ طاقت ور ترین شوگر مافیانے رات کے اندھیرے میں ساتھ بیٹھ کر شوگر کین پرچیز ایکٹ کی ایک شق میں تبدیلی کروائی، فوری نوٹیفیکشن جاری کروایا اور انتظامیہ کے ذریعے ہنگامی عمل درآمد بھی کروایا گیا. طاقت وروں کے لیے تو فوری قانون بدل دیئے جاتے ہیں.
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود صرف ایک ضلع رحیم یار خان کے لیے پورے صوبے میں دفعہ 144کے سخت اور فوری احکامات صادر فرمائے گئے. کیونکہ اس کے محرکین ضلع ہذا سے تعلق رکھنے والے شوگر مافیا کے ڈان حضرات تھے. خیر یہ گلے شکوے اپنی جگہ پر رہنے دیتے ہیں. اب کیونکہ معاملہ عوامی اور غریبوں کا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعلی صاحب کیا آرڈرز پاس فرماتے ہیں.ذمہ داران سے اب تک عمل درآمد نہ کروانے کی وجوہات بھی طلب کی جائیں.
سستی و لاپرواہی کے مرتکب لوگوں کی باز پرس بھی ہونی چاہئیے. وزیر اعلی صاحب ہمارا مطالبہ ہے کہ مذکورہ بالا ایشو پر قانون کو اہمیت دیں. قانون کو عزت دیں.مستحقین کا بھلا ہوگا سبھی آپ کو آپ کی حکومت کو دعائیں دیں گے. نیکی کا کام ہے آگے بڑھیں اور ایکشن لیں جزاک اللہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر