سلیکیٹڈ حکومت سندھ کے حق حاکمیت پر مسلسل حملہ آور ہے۔ وہ اس صوبے میں عوام کے مینڈیٹ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، کبھی سندھ کے تین ہسپتالوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کی سازش کی جاتی ہے، کبھی گورنر راج کی دھمکی دے دی جاتی ہے، اٹھارویں آئینی ترمیم کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے آرڈیننسوں کے اجراء کے ذریعے وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور اب آئی جی تبدیل کرنے کا استحقاق تک چھینا جاتا ہے۔
آئین کہتا ہے کہ جس صوبے سے گیس نکلے اس کو ترجیح دی جائے گی۔ سندھ جو 72 فیصد گیس پیدا کر رہا ہے، اس کو گیس نہیں دی جا رہی جبکہ دیگر صوبوں میں فراہمی جاری ہے۔ یہ وفاقی استحصال ہے، سندھ اپنا آئینی حق مانگ رہا ہے، حکومتی نااہلی اور بددیانتی کی وجہ سے گیس بحران کے بعد اب آٹے کا بحران ہے، وزیر زراعت سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت 40 ہزار میٹرک ٹن گندم پڑوسی ملک افغانستان کو نہ بھیجتی تو ملک میں بحران پیدا نہ ہوتا، گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا سبب وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیاں ہیں، یہ سب مہنگائی کے سونامی کا نتیجہ ہے۔
تحریک انصاف اٹھارہویں ترمیم کے خلاف سازشوں میں اس لئے مصروف ہے کیونکہ وہ اس ترمیم کو ختم کر کے کسی نہ کسی طرح صوبوں کے اختیارات کم کرنا چاہتی ہے جسے سندھ حکومت آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری پر حملہ تصور کرتی ہے۔
مزید براں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو جو وسائل دیے جاتے ہیں، وہ بھی وقت پر جاری نہیں کیے جاتے، نہ ہی این ایف سی کے تحت وفاقی بجٹ سے صوبائی حکومت کو ملنے والی رقم دی جاتی ہے۔
سلیکیٹیڈ وزیراعظم یا وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت یا وزیر اعلیٰ سندھ کو اکثر سرکاری تقریبات میں بھی نہیں بلایا جاتا، ان کے خطوط کا جواب نہیں دیا جاتا اور فنڈز کے اجراء میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
عمران خان بغض میں سندھ حکومت کی اتھارٹی کو انڈرمائن کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر حیدر آباد کی ایک یونیورسٹی کا افتتاح کر دیتے ہیں جو کہ خالصتاً صوبائی معاملہ ہے، آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس یونیورسٹی کا افتتاح کیا گیا، اس کا چارٹر بھی منظور نہیں ہو سکا اور پی ایس ڈی پی میں اس یونیورسٹی کے لیے کوئی بجٹ بھی نہیں رکھا گیا۔ سندھ حکومت کو بائی پاس کر کے وفاقی حکومت نے کراچی میں 162 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان تو کیا، مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی شہر پر خرچ نہ کی۔
وفاقی حکومت پولیس کے ذریعے صوبائی دائرہ اختیار میں مداخلت کر رہی ہے، جو کہ وفاق اور صوبے کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سعید غنی کہتے ہیں کہ سندھ پولیس کے آئی جی کو تبدیل کرنا صوبائی حکومت کا حق ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام کا صوبے میں رہنا پولیس کے لیے ٹھیک نہیں۔ پولیس میں کچھ افراد سندھ حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں، کلیم امام متنازع بن چکے ہیں، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو خود مستعفی ہو جاتا، جو حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہو اسے چلے جانا چاہیے۔ پولیس آفیسر کو کسی کا حامی یا خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ آئی جی صاحب کی سربراہی میں چند افراد ایسے ہیں جو سازش کر رہے ہیں۔ جن کو شوق ہے وہ نوکری چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کر لے۔
اس سے قبل اسی حوالے سے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیرِ اعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے۔ خط میں انہوں نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم سے 16 جنوری کو فون پر آئی جی سندھ کی تعیناتی سے متعلق بات ہوئی تھی، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی طرح 3 ناموں کا پینل بھیج دیا ہے۔ مراد علی شاہ کے خط کے ساتھ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے خطوط کی کاپیاں بھی منسلک ہیں۔
صوبائی معاملات میں وفاقی مداخلت اور صوبائی خود اختیارات سے انکار کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا، سقوط ڈھاکہ کا سبق ہمارے حکمران کے لئے ہے، جب صوبہ بنگال کو صوبائی اختیارات، ان کی تاریخ و ثقافت اور شناخت سے محروم کیا گیا تو وفاق قائم نہ رہ سکا، اور بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان کو اگر ایک مضبوط وفاق اور جمہوریہ کا طور پر آگے بڑھنا ہے تو اس کو صوبوں کو بطور وفاقی اکائیوں کے تسلیم کرنا ہو گا، اور ان کے آئین کے تحت حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ