کالم نویسی بالکل اس طرح ھے جیسے سٹیج پر اداکاری۔اگر آپ اچھی پر فارمنس دیں تو فوراً تالیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں اور اگر بے توجہ ہو کر کوئی غلطی کر لیں تو سیٹیاں بج جاتی ہیں۔
فون کال اور قیامت کے نامے آجکل میسیج بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ریڈیو پاکستان کی سالگرہ پر کالم لکھا تو بہت سے ایسے لوگوں کے نام لکھنے سے رہ گئے جو ریڈیو کی بنیاد رکھنے میں شامل تھے۔
جب انہوں نے فون اور میسیج کر کے یاد دلایا تو بڑی ندامت ہوئی۔ ان کا گلہ بالکل بجا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت شھر سے کافی دور درابن روڈ پر کوٹلہ سیدان کے ساتھ بنائی گئی تھی۔
اس وقت یہ ایک سنسان علاقہ تھا اور ٹرانسپورٹ بھی بھت کم تھی ۔ موٹر سائیکل بھی ابھی نئے نئے مارکیٹ میں داخل ھو رھے تھے۔ تو ریڈیو سٹیشن جانا اور پروگرام کرنا ایک پوری مشقت تھی۔
ہمارے ایک پشتو کے کمپیر تو روزانہ کڑی دھوپ میں سات کلومیٹر پیدل چل کر آتے تھے۔۔سائیکل رکشے تھے کیونکہ چنگچی جیسی نا معقول سواری ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔
پرانے زمانے کی راکٹ بسیں بہت کم تعداد میں چلتی تھیں مگر ان بسوں میں بھیڑ بکریاں بھی سفر کرتیں۔
بکری کی عادت ھے کہ وہ دودھ تو دیتی ھے مگر مینگنیاں بھی۔اور ریڈیو والوں سے تو بکری کے بچوں کی خاص محبت تھی ۔
یہ لیلے لیلیاں ہماری گود میں آ کر سو جاتے اور کپڑوں پر مینگنیوں کے پرنٹ بنا دیتے۔ تو ایسے حالات میں ان لوگوں کا ذکر نہ کرنا جنہوں خون سے اس چمن کو سینچا تھا بڑی زیادتی ھے۔
پیر نمیر صاحب نے اپنے کمنٹس میں بتایا کہ میں پیر محمد سعد سراجی صاحب کا ذکر کرنا بھول گیا۔ جی بالکل درست کہا۔۔۔پیر محمد سعد سراجی صاحب بہت پیاری شخصیت کے مالک جب ریڈیو آتے تو سب کے ساتھ اس طرح ملتے کہ دل باغ باغ ہو جاتا۔بلا شبہ انہوں نے اپنی تقاریر کے ذریعے بڑی خدمت کی ۔
پیر نمیر سے میری ملاقات تو نہیں مگر بہت اعلی اخلاق کے انسان لگتے ہیں ۔۔ دوسرا ایک صاحب نے ہمارے دوست حسن نظامی صاحب کا ذکر کیا۔ جی نظامی صاحب بڑی علمی شخصیت تھے اور ریڈیو کے ذریعے اپنے خیالات عمدگی سے بیان کرتے تھے۔
مجھے تو ان کے گھر پر نجی محفلوں میں ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ انکے فرزند مسعود نظامی صاحب بھی بہت خوبیوں کے مالک ہیں جن سے ملکر بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ھے۔
حسن نظامی صاحب کے ڈینٹل سرجن بیٹے محمودالحسن تو میرے حج شریک بھائی ہیں وہ اور آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر شکیل گیلانی ہم ساتھ ساتھ مِنا کے خیمے میں بیٹھے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے تھے۔
ہمارے دو اور دوست ڈاکٹر امان اللہ کاکڑ اور عزیزاللہ کاکڑ صاحبان کا بھی ریڈیو کو تعاون حاصل رہا اور ان کے مشوروں سے لوگوں کو کافی فائدہ پہنچا۔
ڈاکٹر امان اللہ کی تو لٹریچر سے بھی دلچسپی بڑی گہری ھے۔۔نیاز حسین زیدی ۔۔ پروفیسرجلیل بلوچ ابتدائی دنوں میں نیوز میں خدمات انجام دیتے رھے۔ کچھ خواتین کے بھی فون آے جو ریڈیو کی تاسیس میں شامل تھیں۔
میں ایک اور کالم یا پھر کتاب لکھ کر تمام احباب کی شکایت کا ازالہ کرنےکی کوشش کرونگا۔سٹیشن ڈائیرکٹر نجم الحسن صاحب نےسالگرہ کے روز ایک لنچ کا انتظام کر کے بہت دوستوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ لیکن وہ اتنے مصروف تھے کہ میں سب لوگوں کے ناموں کی لسٹ ان سے حاصل نہ کر سکا۔
مگر آج جس مشکل سے دو چار ہوں وہ محترم دوست ڈاکٹر اظہر شیرازی صاحب کا فون ھے۔ ڈاکٹر شیرازی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال میں کارڈیالوجی وارڈ کے انچارج ہیں۔
انہوں نے فون کرکے ایک دلچسپ شکایت کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یار تم سیریس کالم تو روز لکھتے ہو اب کوئی فکاہی کالم بھی لکھا کرو ۔ سارے دن بور ہو جاتے ہیں کوئی مزاح کا تڑکہ لگاٶ کی ”ساڈا موڈ بنڑے” یا تھکیڑا لہہ ونجے”۔
اب میں انہیں کیسے بتاٶں کہ خود میرے اپنے یار۔شفیق علوی اورکرنل ریٹایرڈ اطلس خان صاحب اجکل بڑے سیریس جا رھے ہیں۔
آخر ڈاکٹر اظہر شیرازی کی خاطر آج میں نے اپنے پرانے دوست ریٹائرڈ ماسٹر راجہ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ ماسٹر لوگوں کے پاس بڑے پریکٹیکل جوک ہوتے ہیں۔
ماسٹر کی زندگی پرائمری سکولوں کی ہیڈماسٹری کرتے گزری ھے۔ میری مشکل کو دیکھر فرمانے لگے ماضی میں ایک دیہاتی پرایمری سکول میں ہم تین ٹیچر تھے ایک دن دونوں ٹیچر میرے پاس آے کہنے لگے جناب ہیڈماسٹر صاحب ایک ماہ سےکوئی اچھا کھانا ثوبت وغیرہ نہیں کھائی تنخواہ بھت قلیل ھے کچھ انتظام کرو۔
میں نے کہا کچھ کرتے ہیں اور دوسرے دن ایجوکیشن افسر کے پاس شھر دفتر پہنچا اور اسے بتایا سکول کی چھت بڑی خراب ھے لپائی کرانی ھے کچھ رقم دیں ۔ایجوکیشن افسر نے اس شرط پر تین ھزار روپے دے دئے کہ وہ خود آ کر لپائی کا معائنہ کریں گے ۔ میں واپس آگیا اور ہر ہفتے ثوبت کھانے کا پروگرام چلنے لگا۔
ایک دن صبح صبح ایجوکیشن افسر سکول آ دھمکا اور کہا میں چھت کی لپائی کا معاینہ کرتا ھوں ۔تو ہاتھ پاوں پھول گئے۔خیر میں نے کہا آپ تشریف رکھیں میں پڑوسیوں سے سیڑھی لاتا ھوں تاکہ آپ چڑھ کر چھت دیکھ سکیں۔
میں ساتھ والے گھر گیا اور پڑوسی کو سمجھا کر سیڑھی لے آیا اور لگا دی۔ ایجوکیشن افسر سیڑھی کی طرف لپکا تو میں نے اسے رکنے کو کہا تاکہ میں پردے کا اعلان یعنی ھوکا دے لوں ۔
اب میں نے تھوڑا اوپر چڑھ کر آواز دی۔۔۔”پڑدے آلے پڑدا کرو۔۔چاڑا چھت تے چڑدا۔۔ ابھی دوسری باری اعلان جاری تھا کہ پڑوسی نے سکول کی باونڈری وال سے سر نکال کے کہا۔۔۔” او ماسٹرو ۔خدا تہاڈا تختہ کڈے پہلے پورہ ہفتہ ساڈیاں ذالیں پڑدہ کر کے بیٹھیاں ریہن جو تہاڈی چھت دی لپائی نای ختم تھیندی اج ساڈیاں ذالیاں کپڑے دھوون شروع کیتا تاں وت تہاڈی چھت تے کم شروع تھی گئے۔
تہاکوں شرم تے حیا نیں آندی او راجوڑا ماسٹر تو ہر ویلے موری مچھی آلا منہ کھول کے ھوکا ڈیندا رہندا ھیں کجھ بالاں کو پڑھا وی ڈتہ کر….
“بس اس بات کا سننا تھا کہ ایجوکیشن افسر نے موٹر سائیکل پر کک ماری اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
ثوبت کے اگلے کھانے میں پڑوسی بھی ہمارے ساتھ بیٹھا تھا۔..اب ڈاکٹر شیرازی جانے اور ماسٹر راجہ جانے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ