آج کی بات۔۔۔۔۔ صرف خواب نہ دکھائیں‘ عمل کرکے بھی دکھائیں!
پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ عوام کو سنہرے خواب ضرور دکھاتے ہیں جس پر یہ بھولی بھالی عوام بھی گزشتہ ستر سال سے یقین کرتی ہوئی چلی آرہی ہے لیکن بد قسمتی سے خوابوں کی تعبیر کے پیچھے بھاگتی بھاگتی جب پاکستانی عوام اپنا سفر طے کرکے مطلوبہ مقام پر پہنچتی ہے تو اسے یہ دیکھ کر شدید حیرانی اور پریشانی ہوتی ہے کہ وہ جسے منزل مقصود کا آب حیات یا پانی سمجھ رہی تھی وہ تو دراصل ریت پر مشتمل ایک ریگستان ہے جسے آپ دھوکا یا سراب بھی کہہ سکتے ہیں۔
گزشتہ سات دہائیوں سے منز ل مقصود کی متلاشی پاکستانی قوم کسی رہبر کی تلاش میں ادھر ادھر سرگرداں نظر آتی ہے لیکن طویل تر سفر کے باوجود وہ بالآخر نقطہ آغاز پر واپس پہنچ جاتی ہے گول دائرے میں ایک عرصے سے جاری ہماری قوم کایہ سفر صفر سے شروع ہو کر بالآخر صفر پر ہی پہنچ جاتا ہے خدا جانے ہم کب تک اس سراب کے پیچھے بھاگتے اور اپنے لیڈروں سے دھوکا کھاتے رہیں گے؟
محترم قارئین کرام،، یہ مختصر اور فکر انگیز تحریر جو آپ اوپر پڑھ چکے ہیں. یہ الفاظ، جذبات، سوچ اور احساسات میرے انتہائی قابل احترام دوست، سماجی و سیاسی شخصیت،; نامور کالم نگار جناب نذیر احمد صدیقی کے ہیں جو میں نے ان کی وال سے آپ کے ساتھ شیئر کیے ہیں. مسلسل جاری اور مسلط قومی المیے کے دکھ و درد اور کرب کو انہوں ایک بڑے خوصورت انداز میں نہ صرف ہم سب کے سامنے رکھا ہے بلکہ ہم سب کو جھنجھوڑتے ہوئے ایک فکر کی تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.تلخ حقائق کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب سے یہی کہنا چاہوں گا کہ جناب یہی ہے ہمارا قومی المیہ
کئی نی ساڈا حال
سبھ منڈی دا مال
ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی کی تحریر پڑھ کر مجھے سرائیکی زبان کے ایک غیرت مند انقلابی شاعر سید خورشید بخاری شدت سے یاد آ رہے ہیں.جنھوں نے سرائیکی وسیب ماں دھرتی اور وطن عزیز کے مظلوم و محکموم عوام اور لوگوں کے حالات اور حقائق کی عکاسی کرنے کے بعد ببانگ دہل اس عزم کا اظہار کیا کہ ُ ُ ُقسم اے لاچار لوکاں دی اساں سچ دا سفر کرنے ٗ ٗ. سچ کیا ہے.
سچ کا سفر کیا ہے. سچ کے سفر کی مشکلات اور دشواریاں کیا ہیں. سچ کی صعوبتیں کیا ہیں اور سچ کی لذت کیا ہے. یقینا اس کی حقیقت کو صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شعبے میں، کسی نہ کسی مقام پر اس سفر پر ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ سچ کا سفر نہ کبھی رکا ہے اور نہ کبھی رکے گا. تاقیامت اور بعد از قیامت اس نے جاری اور قائم ودائم رہنا ہے.
سچ میں ہی بقا اور بہتری ہے. گمراہی کے اندھیروں میں، دنیا کی بھل بھلیوں میں چکرا کر بھٹک جانے والے بلاآخر دیدہ ان دیدہ سزائیں ہی اٹھاتے ہیں.
وطن عزیزجسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں.اسے اپنے قیام سے لیکر اب تک اپنے قیام کے مطلب و مقاصد اور عوامی خوابوں کی منزل سے دور ادھر اُدھر گھمایا پھریا جا رہا ہے.بد قسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے ہمیشہ محض بہروپوں یا پھر کٹھ پٹلیوں کا کردار ادا کیا ہے.
میں اپنی میٹھی سرائیکی زبان میں لکھے ہوئے اپنے چند ٹوٹے پھوٹے یہ الفاظ اور فقرے مذکورہ بالا اضطراب اور دکھ درد کو بیان کرنے والے اپنے دوست ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی کی نذر کرتا ہوں.
جینکوں اپنی خبر کائینی
او جہان دیاں خبراں ڈیندے
کینکوں کوں کئیں ویچے
ایندی وی سُدھ پے ویسی
پہلے اے تاں ڈسا
تیکوں کئیں ویچے
میکوں کئیں ویچے
اے کوڑ دی نگری ھے
پے وجدے منافقت دے نغارے ہن
لگا ھے تماشہ
پے ڈیہدے یار سارے ہن
بلاشبہ ڈاکٹر صدیقی صاحب سچ کے سفر کے پاندھی ہیں.حکومتی شخصیات سے تعلق و قرب اور اپنے سیاسی تعلق سے بالاتر ہو کر عوامی اور زمینی حقائق بیان کرنا لکھنا اور ان کی مختلف انداز میں عکاسی کرنا یقینا سچ کے سفروں کے مسافروں کا ہی طرہ امتیاز، کام اور وطیرہ ہوتا ہے.
اے میرے دوست آپ سچ لکھنے والوں کا حوصلہ ہیں. اللہ تعالی اس قلم کی طاقت اور اثر آفرینی میں اضافہ فرمائے اور قلم کی حرمت کو سلامت رکھے آمین. ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے کہ وہ اپنی عوام کے ساتھ دھوکے کرنے سے باز آ جائیں. ان کے ساتھ اب جھوٹ اور مکر و فریب کی سیاست کرنا ترک کریں.
خطہ سرائیکستان کے عوام سے اپنا صوبہ اپنا اختیار کا نعرہ لگا کر ووٹ لینے اور صوبہ بنانے کا وعدہ کرنے والے سیاست دان اور ان کو آگے لانے والی قوتیں دوتہائی اکثریت کے ذریعے یا پھر قانون میں ترمیم کرکے انہیں صوبہ دیں مزید دھوکے نہ دیں.اقتدار کے پہلے سو دنوں میں سرائیکی صوبہ نہ بنانے والوں پر آئین کی شق اور دفعہ 62,63لاگو ہونی چاہئیے یا نہیں.کیا وسیب کا کوئی ہمدرد اس حوالے سے عدالت اعلیہ یا عدالت عظمی کے دروازے پر دستک دینے کی ہمت کر سکتا ہے.
محترم قارئین کرام،،وطن عزیز کے زمینی سیاسی و انتظامی حالات و واقعات واضح بتا رہے ہیں کہ تبدیلی سرکار تو خود تبدیلی کے نعروں اور تبدیلی کی راہوں سے تبدیل ہو چکی ہے.قبر کو سکون کا مقام قرار دینا ایک اور دھوکہ اور جھوٹ ہے. ایسی باتیں کسی کی علمی کو ظاہر کرتی ہیں. دنیا کی طرح قبر بھی ایک سخت آزمائش کا مقام ہے.اعمال کے مطابق جہاں پر سکون اور عذاب دونوں کیفیات ثابت ہیں.
سکون کا مقام تو صرف جنت ہے. جو صاحب ایمان مسلمانوں اور اللہ تعالی کی طرف سے بخشے گئے انسانوں کو ملے گی.کوڑ نگر کے جھوٹے اور ٹھگ لیڈرز، ذہنی غلام اور بھولی عوام میں کب اور کیسے تبدیلی آئے گی. یہ تبدیلی آخر لائے گا کون?. فلاح،بہتری، نجات، امن، سکون کی تلاش کے لیے ہمیں ٹھگ اور جھوٹے دنیادار و مکار لیڈروں کی بجائے قرآن و سنت کا مطالعہ کرکے وہاں سے ملنے والی ہدایات کے مطابق ہی زندگی گزارنی ہو گی. مایوسی سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ