نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ بھی لیں اور کام نہ کریں؟ چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ میں ورکرز ویلفیئر فنڈز کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی حکومت کے افسران پر برہم ہوگئے۔ انہوں نے کہا افسران  نے کام نہیں کرنا تو ہمارے پاس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے،ہم حکم جاری کر دیتے ہیں ساری کمپنیاں سپریم کورٹ میں پیسے جمع کرائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم خود ورکرز میں فنڈز تقسیم کر دیں گے،ہم پورے محکمے کو ہی ختم کر دیں گے،پھر افسران بیٹھے رہیں،کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ بھی لیں اور کام نہ کریں ۔

سپریم کورٹ میں ورکرز ویلفیئر فنڈز کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

سندھ اور بلوچستان حکومت سے ورکرز ویلفیئر فنڈز کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی گئی ۔ سندھ حکومت سے ہائیکورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔

عدالت نے کہا سندھ حکومت بتائے کتنے مقدمات ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں؟ بتایا جائے کتنے فنڈز اکھٹے کیے اور کتنے تقسیم کئے۔

عدالت نے  وفاقی حکومت پر اظہار برہمی کیا ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا حکومتی مشینری کیوں کام نہیں کر رہیَ، یہ  خواہ مخواہ ہم پر بوجھ پڑ گیا ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈز کا اجراء آٹومیٹک ہو جانا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا پہلے ورکرز ویلفیئر فنڈز کا اجراء آٹومیٹک ہو رہا تھا،حکومت نے آج تک کوئی ورکر کالونی نہیں بنائی،آفیسر پیسے دبا کر بیٹھے ہیں، سیر و تفریح ہو رہی ہے ۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ افسران باہر گھوم رہے ہیں، سمینار میں شرکت کرتے لیکن کام نہیں کر رہے، کے پی حکومت نے کالونی بنائی لیکن ملکیت کے حقوق دیدیئے۔ کس قانون کے تحت ملکیتی حقوق دیئے گئے؟

انہوں نے کہا یہ کالونی صرف ورکر کے لیے ہے اور سروس سے ریٹائرمنٹ پر چھوڑنی ہوتی ہے،افسران نے کام نہیں کرنا تو ہمارے پاس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے،ہم حکم جاری کر دیتے ہیں ساری کمپنیاں سپریم کورٹ میں پیسے جمع کرائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم خود ورکرز میں فنڈز تقسیم کر دیں گے،ہم پورے محکمے کو ہی ختم کر دیں گے،پھر افسران بیٹھے رہیں،کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ بھی لیں اور کام نہ کریں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ورکرز کو چیک کے اجراء میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے؟ چیک کے اجراء کے بعد ہی بچہ اسکول جاتا، بچوں کی شادی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومت نے ورکرز کے لیے کتنی ہاؤسنگ کالونیاں بنائی ہیں؟ ہمیں تو کوئی کالونی نظر نہیں آتی، فنڈز سے ورکرز کے لیے ہاؤسنگ کالونیاں بنانی تھیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا سارا پیسے پھنس گئے، افسران پیسہ ریلیز ہی نہیں کر رہے، کیا صوبوں میں تقسیم ہونے والے پیسے کا آڈٹ ہوتا ہے؟ یہ پیسہ بھی دوسری اسکیموں کی طرح تو نہیں تقسیم ہوتا۔

پنجاب حکومت کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا پنجاب حکومت نے قانون سازی کی ہے،قانون کے مطابق فنڈز کی تقسیم ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا 18 ویں ترمیم کے بعد کیا وفاق ورکرز ویلفیئر فنڈز کا پیسہ اکھٹا کر سکتا ہے،کیا اس آئینی نقطے کا کھبی جائزہ لیا گیا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سی سی آئی میں طے ہوا سارا پیسہ وفاق اکھٹا کرے گا، سندھ کے علاوہ تمام صوبوں کا پیسہ وفاق اکھٹا کرتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہمارے ہاں سوشل ویلفیئر کا نظام موجود نہیں ہے،ورکرز کی مدد کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈز ہی ہے،ورکرز ویلفیئر فنڈز، ای او بی آئی کا پسیہ کہیں اور استعمال نہیں ہو سکتا۔

کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی  کردی گئی ۔

About The Author