نیب آرڈیننس کی شق 25 اےیعنی پلی بار گین سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نیا نیب قانون لانے کے لیے تین ماہ کی مہلت دے دی ہے۔
عدالت نے کہا توقع کرتے ہیں حکام نیب قانون سے متعلق مسئلے کو حل کرلیں گے،نیب قانون کے حوالے سے مناسب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا،
سپریم کورٹ نے کہا اٹارنی جنرل کے مطابق فاروق ایچ نائیک نیب قانون میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرچکے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق حکومت نیب قانون میں ترمیم کیلئے تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
عدالت عظمی نے کہا کہ تین ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت قانون اور میرٹ کو دیکھتے ہوئے کیس کا فیصلہ کرے گی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا 25 اے کے معاملے پر ترمیم ہوگئی ہے؟کیا یہ معاملہ اب ختم ہوگیا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے ختم ہوا یا اس میں ترمیم ہوئی؟
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاسینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں میرا نیب آرڈیننس سے متعلق پرائیویٹ ممبر بل موجود ہے،سینیٹ کمیٹی سے منظوری کے بعد معاملہ ایوان میں جائے گا،بل کے مطابق نیب کے آرڈیننس 25 اے کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا ہے۔
درخواست گزار اسد کھرل نے کہا 2016 سے یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے،15 تاریخیں ہوچکی ہیں معاملہ جوں کا توں ہے،23 مئی 2019 کو آخری عدالتی حکم آیا تھا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ اس معاملے پر بحث کرنا چاہتے ہیں؟ ہم تو معاملہ نمٹانے لگے ہیں لیکن اگر آپ نے بحث کرنی ہے تو نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے کو آئین سے متصادم ثابت کریں۔کیا آپ کا موقف ہے کہ رضاکارانہ رقم کی واپسی کرنے والا شخص اپنا جرم بھی تسلیم کرے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے والے شخص کو سزا یافتہ تصور کیا جائے؟کیا نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے سے اب بھی کوئی مستفید ہورہا ہے؟
اسد کھرل نے جواب دیا عدالتی حکم امتناعی کے باعث سیکشن 25 اے غیر فعال ہے، حکومت نیا نیب آرڈیننس لے آئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب کے بہت سے قوانین ہیں آپ کا مقدمہ 25 سے سے متعلق ہے، اس حوالے سے بل حکومت کا نہیں بلکہ فاروق ایچ نائیک کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کھرل صاحب یہ پرائیویٹ ممبر بل ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا موجودہ اٹارنی جنرل کی ہدایت ہے کہ اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کروں، موجودہ اٹارنی جنرل کا موقف گزشتہ اٹارنی جنرل سے مختلف ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا نیب کا قانون ہے کہ پہلے انکوائری ہوگی پھر تحقیقات، 200 گواہ بنیں گے، اس طرح تو ملزم کے خلاف زندگی بھر کیس ختم نہیں ہوگا، کرپشن کی رقم واپس کرنے والوں کو نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔لوگوں کا پیسہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا سپریم کورٹ نیب کو پلی بارگین سے روک چکی ہے۔جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر لیتی یہ اختیار استعمال نہیں ہو گا۔ حکومت نیب قانون کے معاملے کو زیادہ طول نہ دے، نیب قوانین میں ترامیم پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کی کسی دفعات کو غیر آئینی قرار دیا تو نیب فارغ ہو جائے گی۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا حکومت چاہتی ہے کہ نیب کے قانون کو فارغ کر دیں؟ حکومت نے نیب آرڈیننس لا کر نیب کے پر کاٹ دیئے ہیں،کسٹم میں چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ ہو جائے گا،نیب میں تو دس دس سال کیس پڑے رہتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور