حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے سبب کنٹینرز ملک کے مختلف حصوں میں رکے ہوئے ہیں اور بیرون ملک ترسیل تعطل کا شکار ہے۔
ٹرانسپورٹرز اتحاد کے ترجمان امداد حسین نقوی نے کا کہناہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے رابطے میں ہیں اور جلد کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے رزاق داود اور گورنر عمران اسمعیل اوور لوڈنگ کے خاتمے میں مثبت کردار ادا کریں گے، مقامی اور ملکی صنعتوں کی تیار کردہ برآمدی مصنوعات کی بندرگاہوں تک ترسیلات مطالبات کی منظوری کے بعد ہی بحال ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں دو بین الاقوامی بندر گاہیں ہیں مگر ٹرانسپورٹرز کو اپنے ٹرک، ٹرالرز اور کار کیرئرز پارک کرنے کے لئے پارکنگ یارڈ تک دستیاب نہیں۔
گڈز ٹرانسپورٹرز کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید فوری طور پر مستعفی ہوں، ایکسل لوڈ ایس آر او 2000 پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے، ڈرائیونگ لائسنس فیس کی تجدید میں ایک ہزار گنا اضافہ واپس لیا جائے، ٹوکن فیس میں اضافہ واپس لیا جائے اور سندھ حکومت کی طرف سے روٹ پرمٹ کی فیس جو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ وصول کی جارہی ہے وہ ختم کی جائے۔
کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ کے مابین رابطے کی واحد شاہراہ مائی کلاچی لوکل گڈز ٹرانسپورٹرز کے لئے کھولی جائے۔
گڈز ٹرانسپورٹرز کے مطالبات میں ایکسل لوڈ کے قانون کا نفاذ، مائی کولاچی کی شاہراہ دن کے اوقات میں لوکل گڈز ٹرانسپورٹرز کے لئے کھولنے اور ڈرائیونگ لائسنس کے مسائل سرفہرست ہیں۔
پھل اور سبزیاں بیرون ملک ترسیل کرنے والے تاجروں کی ایسوسی ایشن کے مطابق ہڑتال کے سبب بیرون ملک ترسیل کیلئے کینو، ٹماٹر اور پیاز کے 14 سو کنٹینر بندرگاہوں تک نہیں پہنچ سکے۔ تاجروں کی جانب سے ہڑتال کے سبب بیرون ملک سے نئے آرڈر اور درآمدات میں کمی کا خدشہ ہے۔
خیال رہے کہ پھل اور سبزیوں کی مدت سب سے کم ہوتی ہے اور انہیں جلد از جلد مارکیٹ تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ بیرون ملک منڈیوں میں پاکستانی پھل اور سبزیاں نہ پہنچنے کے سبب بھارتی مصنوعات کو جگہ ملے گی جو پاکستان کی برآمد میں کمی کا امکان۔
مسئلہ آخر ہے کیا؟
نیشنل ہائی وے سیفٹی آرڈینینس 2000 میں مقرر کردہ ایکسل لوڈ(گاڑیوں پر وزن لادنے کی حد) پر یکم جون2019 سے سختی سے عملدرآمد کا فیصلہ کیا تھا۔
بعد ازاں معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹ کیا کہ حکومت نے ایم نائن موٹروے پر ایکسل لوڈ کا قانون معطل کر دیا ہے۔
مذکورہ قانون کے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اس کو عدالت اور انتظامیہ معطل نہیں کر سکتی۔ عدالت نے نومبر2019 میں متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی ایکسل لوڈ قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے 1991 میں قومی شاہرات کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے، ٹریفک حادثات میں کمی اور ٹرانسپورٹرز کی سہولت کیلئے معیار اور گاڑیوں پر وزن لادنے کی حد کا تعین کیا تھا۔ جس کے مطابق ایک حد سے تجاوز پر ٹرانسپورٹرز کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گڈزٹرانسپورٹرز کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت اس قانون کا دوبارہ نفاذ کرے تاکہ شاہراہوں اور موٹرویز پر حادثات کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی بلکہ سڑکوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی محفوظ رکھا جاسکے۔ وزیراعظم تینوں بارڈرز دونوں پورٹس اور تمام صنعتوں سے اوور لوڈنگ روکنے کا حکم جاری کریں۔ فی الحال حکومت نے یہ قانون خود ہی معطل کر رکھا ہے جس کے نفاذ کیلئے ٹرانسپورٹرز وقتاََ فوقتاََ ہڑتالیں کرتے رہتے ہیں۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ