ہمارے دوست محمد مالک کے پروگرام میں اینکر کاشف عباسی نے انکشاف کیا کہ جب لندن سے نواز شریف صاحب نے خواجہ آصف کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آرمی ایکٹ پر کوئی چوں چراں کیے بغیر انہوںنے ووٹ ڈالنا ہے تو اس پر پارٹی کے اندر کچھ لیڈروں نے ردعمل دیا۔ انہوں نے باقاعدہ نام لے کر کہا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو بہت ناراض ہوئے‘ ان کی ناراضی اتنی بڑھ گئی کہ جس واٹس ایپ گروپ میں یہ ساری بحث ہورہی تھی اس سے خواجہ آصف نے خود کو باہر کر لیا ۔ سب لوگ ناراض تھے کہ اچانک تین سال بعد پارٹی نے یو ٹرن لے لیا ہے اور کسی سے مشورہ تک نہیں کیا گیا ۔
محمد مالک نے بڑی اہم بات کی کہ آخر خواجہ آصف کو ہی نواز شریف نے کیوں چنا کہ وہ پاکستان واپس جا کر یہ پیغام پارٹی کو دیں کہ وہ آرام سے آرمی چیف کی توسیع میں ووٹ ڈالیں؟ اس کا جواب مالک نے یہ دیا کہ ایک پارٹی رہنما کا کہنا ہے کہ جب نواز شریف کو سیدھا اور بغیر اگر مگر کے کوئی پیغام دینا ہوتا ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے تو وہ اس کام کے لیے خواجہ آصف کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ پیغام رسانی میں کوئی غلطی نہیں کرتے اور کوئی لفظ بھی مس نہیں ہوتا اور ان کا لہجہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ میاںصاحب چاہتے ہیں کہ یہ کام ایسے ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ پارٹی کے کچھ ایم این ایز صرف خواجہ آصف سے کیوں خفا ہیں؟
کاشف عباسی نے پھر اچھی بات کی کہ یہ سب ناراض کارکن یا ایم این ایز خواجہ آصف سے ناراض ہونے کی بجائے تھوڑی سی ہمت کرتے اور فون اٹھا کر نواز شریف یا شہباز شریف سے براہ راست بات کر لیتے اور غصے کا اظہار کر لیتے۔ بات وہی ہے کہ بہت سے لیڈر اتنی جرأت نہیں کرتے کہ وہ ان کے منہ پر اپنے غصے کا اظہار کر سکیں۔ اپنے لیڈروں کے سامنے وہ خاموش رہ کر یہ تاثر دیں گے کہ وہ ان کی ہر بات سے اتفاق کرتے ہیں‘ لیکن پیٹھ پیچھے ایسے اظہار کرتے ہیں جیسے اگر وہ صاحب ان کے سامنے ہوں تو وہ انہیں کچا چبا جائیں گے۔ مجھے یہ واقعہ سن کر چند واقعات یاد آگئے ہیں۔ میں 2003 ء میں اپنی کتاب ایک سیاست کئی کہانیاں پر کام کررہا تھا تو چوہدری نثار علی خان سے بھی ملا۔ انہوں نے پاکستانی وزیروں اور سیاستدانوں بارے ایک اہم واقعہ سنایا‘جو اِن سب کی اوقات اور لیول کو ظاہر کرتا ہے اور آج بھی یہ بات سب پر لاگو ہوتی ہے۔ چوہدری نثار بتانے لگے کہ میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیراعظم تھے اور چھ ماہ سے زیادہ وقت گزر گیا لیکن انہوں نے کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا تھا ۔ چند وزرا ء ان سے ملے اور بتایا کہ بہت اہم سمریاں اور فیصلے ہونے والے ہیں لیکن نواز شریف کو پروا نہیں ہے اور نہ وہ کوئی اجلاس بلاتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ چوہدری نثار کو لگا کہ یہ چند وزیر بہت غصے میں ہیں اور یقینا یہ سب اپ سیٹ ہیں۔ چوہدری نثار علی خان‘ جو اہم وزیر تھے‘ نے نواز شریف سے بات کی تو وہ راضی ہوگئے کہ کابینہ کا اجلاس بلایا جائے۔ جب اجلاس شروع ہونے لگا تو چوہدری نثار علی خان کو لگا کہ آج تو بہت فائر ورک ہوگا‘ یہ وزیر نوازشریف پر اپنے غصے کا اظہار کریں گے کہ دیکھیں آپ اچھے وزیراعظم ہیں چھ ماہ گزر گئے لیکن ابھی تک آپ نے کابینہ کا اجلاس تک نہ بلایا۔ جونہی اجلاس شروع ہوا تو چوہدری نثار علی خان کی حیرت کی حد نہ رہی جب وہی وزیر جو نواز شریف پر برس رہے تھے کہ اجلاس نہیں بلاتے وہ وزیراعظم کی ایسی تعریفیں اور خوشامدیں کرنے لگ گئے کہ چوہدری نثار شرمندہ ہوگئے۔ چوہدری نثار جیسابندہ زیادہ دیر تک ایسی باتیں برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے اور کابینہ اجلاس میں بول پڑے کہ میاں صاحب میرا خیال ہے ایک قانون لایا جائے جس کے تحت یہاں کابینہ اجلاس میں خوشامد پر پابندی لگائی جائے۔ نواز شریف جو اِس خوشامد کے مزے لے رہے تھے یہ سن کر ناراض ہوگئے اور کہا کہ وہ یہ بات بعد میں بھی کہہ سکتے تھے۔
اب وہی کام ہوا ہے کہ سب لوگ خواجہ آصف پر ناراض ہوگئے ہیں کہ انہوں نے یہ پیغام کیوں دیا۔ بات وہی کاشف عباسی کی درست ہے کہ اگر آپ لوگوں میں اتنا غصہ ہے اور کردار بہت بڑا ہے تو پھر فون اٹھائیں اورسیدھا لندن ملائیں اور شہباز شریف اور نواز شریف کو کھری کھری سنائیں کہ جناب آپ نے یہ کیا فیصلہ کیا ہے اور ہمیں شرمندہ کرادیا ہے سب کے سامنے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا جب شریف خاندان نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے جیل میں سڑنے گلنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا اور خود باہر نکل گئے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد جب شریف خاندان نے جنرل مشرف سے ڈیل کی تھی تو بھی یہی کچھ ہوا تھا کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی تھی۔ اس وقت بھی نواز شریف کے قریبی ساتھی جنرل مشرف کے ساتھ ملنے کی بجائے جیل میں بیٹھے ہوئے تھے‘ لیکن نواز شریف خاندان نے صرف اپنی ذات کے لیے ڈیل ماری‘ حالانکہ وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ جیل میں ان کی پارٹی کے دیگر ساتھیوں کو بھی رہا کیا جائے لیکن انہوں نے ایسا نہ کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی انہیں پتہ چلنے دیا کہ وہ کوئی ایسی ڈیل کررہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 2007 ء میں لندن میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ اکثر ڈیوک سٹریٹ دفتر میں نواز شریف کے منہ پر کہا کرتے تھے کہ میں اٹک قلعہ میں آپ کے ساتھ ہی قید تھا لیکن آپ نے مجھے تک نہ بتایا کہ آپ جارہے ہیں۔ شاہ جی بڑی معصومیت سے پوچھتے تھے: میاں صاحب آپ کو لانے کے لیے اتنا بڑا جہاز آیا تھا اس جہاز میں اس غریب مسکین سندھی کے لیے ایک سیٹ بھی نہیں تھی؟ آپ ہمیں بھی ساتھ لے جاتے تو ہم اکیلے جیل میں نہ سڑتے رہتے؟ غوث علی شاہ کو اس گستاخی کی یہ سزا ملی کہ جلاوطنی کے بعد جب اقتدار ملا تو ان (غوث علی شاہ) کو اٹھا کر باہر مارا گیا‘جو اِن کے لیے جیلیں بھگتتے رہے تھے اور اس کی جگہ ممنون حسین کو صدر بنا دیا جو انہیں دہی بھلے کھلاتے تھے۔ غوث علی شاہ کو آج تک یہ الفاظ کہنے پر معافی نہیں ملی۔ اسی طرح مشاہد حسین اور چوہدری شجاعت حسین جنرل مشرف کے ساتھ مل کر( ق) لیگ بنانے کا بھی یہی جواز فراہم کرتے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ دھوکا نہیں کیا تھا بلکہ یہ دھوکا ان کے ساتھ نواز شریف اور شہباز شریف نے کیا تھا جب وہ انہیں اکیلا جنرل مشرف کی جیل میں چھوڑ کر خود آرام سے سعودی عرب دوڑ گئے تھے۔
اب بھی اگر دیکھا جائے تو شریف خاندان نے تاریخ کو دہرایا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے پہلے خود کو رہا کرالیا ‘ پھر مریم نواز بھی ضمانت پر باہر نکل آئیں۔ نواز شریف نے اپنے بچوں کو لندن مفرور کرادیا‘ شہباز شریف نے بھی اپنے بیٹے سلمان شہباز کو بیوی بچوں سمیت لندن بھجوا دیا۔ شہباز شریف نے اپنے داماد علی عمران کو بھی لندن مفرور کرا دیا حالانکہ ان سب کے وارنٹ نکل چکے تھے‘ لیکن جو محنت انہوں نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے کی وہ محنت آپ کو شاہد خاقان عباسی‘ سعد رفیق‘ سلمان رفیق‘ رانا ثنا اللہ‘ احسن اقبال اور پارٹی کے دیگر گرفتار لیڈروں کے لیے نظر نہیں آتی۔ یہ سب ڈیل شریف خاندان اپنے لیے کرتا ہے اور اپنے فالوورز اور سیاسی لیڈروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ آرام سے جیل کاٹیں گے ‘ سزائیں بھگتیں گے اور داد دیں ان سب کو‘ یہ سب آرام سے جیل میں بیٹھتے ہیں اور ان سب کا غصہ اتنا سمجھدار ہے کہ یہ صرف خواجہ آصف پر ہی نکلتا ہے‘ شریف خاندان پر نہیں… جو لندن جانے سے پہلے اپنے ان گرفتارساتھیوں کے لیے وہی ڈیل لینے کی کوشش نہیں کرتا جو اپنے خاندان کیلئے لی ہوتی ہے۔
شریف خاندان ان سب گرفتار لیڈروں کے لیے لندن کی طرف گامزن قطری جہاز پر اس طرح کوئی سیٹیں نہیں نکال سکا جیسے بیس برس قبل انہی قطریوں کے بھیجے ہوئے بڑے خالی جہاز میں نواز شریف کے ساتھ اٹک قلعے کے سیل میں قید غوث علی شاہ کے لیے ایک سیٹ نہیں نکلی تھی!
شریف خاندان نے تاریخ کو دہرایا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے پہلے خود کو رہا کرالیا ‘ پھر مریم نواز بھی ضمانت پر باہر نکل آئیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ