ایرانی ہوں ، افغانی ہوں یا عربی ہوں،ان کی رائے عورتوں کے معاملے میں کمزور رہی ہے ۔ یہ قومیں سرائیکی وسیب پر حملہ آور رہیں اور حکومتیں کیں اور ان کے اثرات یہاں کے مرد پر پڑے ۔ اگرچہ یہ اثرات تو پڑے لیکن یہاں کے جغرافیائی اثرات اسے واپس اسی ڈگر پہ لے آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر عرب میں جو زیادہ شادیاں اور لونڈیاں رکھتا ہے ،وہ بڑا مرد کہلاتا ہے۔ جب کہ سرائیکی وسیب میں اگر کوئ دوسری شادی کر رہا ہوتا ہے تو سماجی سطح پر اسے اچھا تصور نہیں کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ شادیاں اور لونڈیاں رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ سرائیکی کے ایک شاعر نے کہا تھا کہ
او تاں اپنڑے ڈیس دے اندرو لونڈیاں رکھی راہندے
اینجھاں گالھیں سنڑ کے زاھد ساڈا رب شرمایا
سرائیکی وسیب میں دو اہم معاملے عورتوں کے سپرد ہوتے ہیں ، پیسوں کا معاملہ اور رشتہ داریاں کرانے کا معاملہ ، جب کہ عربی ،ایرانی اور افغانی اس معاملے میں اپنی عورتوں سے صلاح مشورہ تک نہیں کرتے۔
یہ سچ ہے کہ مرد نے عورت کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ اسے کیا ہونا چاہیے اور کیا کرے ، کیا نہ کرے ۔ مرد اگر دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے لیکن وہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کی عورت دوسرے مردوں میں دلچسپی نہ لے، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
قدیم رنگ میں عورت کو گندگی کی مکھی کہا گیا اور وگتی بازی میں بھی کمزور پیش کیا گیا اور پچھلی شاعری میں بھی شاعر نے یہی کیا ، عورت کو پیٹ کر ، اے عظیم عورتوں ” کے گیت لکھے اور عورتوں کو ناقص العقل قرار دیا۔
کچھ دانشور بلھے شاہ پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ عورتوں کے معاملے میں ان کی رائے کمزور ہے یعنی ان کا یہ کہنا کہ
"نماز پڑھنڑنڑ ہے کم زنانہ ”
ٹھیک ہے کہ نفس کشی کرنا نماز سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن بیچ میں عورت کا استعارہ لگانا ٹھیک نہیں تھا اور اسی طرح بلھے شاہ کا یہ کہنا کہ
” رانجھا رانجھا کردی نیء میں آپ ای رانجھا ہوئ ”
یہ بھی عورت کو مرد کے سپرد کرنے کے مترادف ہے ۔
بیسویں صدی ایسے ہی گزری ہے ۔ اکیسویں صدی میں سئیں رفعت عباس کی شاعری کی کتاب ” ماء بولی دا باغ” شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں رفعت عباس نے ایک نظم ” تریمتیں بارے” میں لکھی ۔ اس نظم میں عورتوں سے زیادتی بارے معافی مانگی گئ ہے۔ آپ بھی وہ نظم پڑھیں ،
روز ڈیہاڑی گالھیں
وڈکیاں دے اکھانڑ
بہوں لکاویں بول
سبھ پاروں معافی
بہوں سارے قصے
ڈھگ ساری شاعری
عمراں دیاں جگتاں
سبھ پاروں معافی
اساں تریمتیں بارے
وادھو جو کر سنڑیا
وادھو جو الایا
سبھ پاروں معافی
1999میں سئیں رفعت عباس کی درگھی نظم ” پروبھرے ہک شہر اچوں ” چھپ کر سامنے آئ۔ جس میں رفعت عباس نے وحدت الوجود کے نظریے سے کشید کر کے عورت کو رب کے روپ میں پیش کیا ۔ عورت کا رب کے روپ میں پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کائنات کو عورت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر آپ دنیا میں تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ بھی مثبت تبدیلی تو دنیا کو عورت کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔
رب ہک تریمت ہے
قدیمی ایں شہر دے اج شیشے اگوں اٹھی ہے
اسمان دے اڈردے پکھی خبر وچ
تے گلیاں وچ لوکیں کوں ہک ڈس اگونہی تاکڑی
تے گلیاں وچ لوکیں دیاں سادہ بہوں گالھیں
زنانیاں اج پورے سنگھار وچ
حاکم دے جلوس کنوں اگوں تھی کے لنگھ گیاں ہن
قاضی دے چوبارے تے لٹھیاں دی حیرانی
عجب بزاروں درکدے ہوئے درویش
رب ہک تریمت ہے
پنوں نے شاید سرمایہ دارانہ نظام کو دل سے قبول نہیں کیا ۔ اس لیے سرمایہ دار اس ریگستان میں "سسی ” کو لے کر آئے ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ سسی کے پاوں میں چھالے ہی کیوں نہ پڑ جائیں وہ چلتی ہی رہے گی ۔ بنکوں ،دفتروں ،بس کے ٹکٹ گھروں سے لے کر کنڈیکڑ کے فرائض اس کے ذمے لگا دئیے گئے ہیں ۔وہ بھی اسے نبھانے پر تلی ہوئ ہے ۔ رفعت عباس اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں ،
تماشے دا ڈینہہ
تے سسی جیڑھی قصے وچ مر گئ ہئ
دھمی نال دفتر پئ ویندی اے
تے پنوں جیڑھا قصے وچ بچ گیا ہئ
نویں ہک نوکری سانگے ویندا پئے
نئے زمانے کے نئے تقاضے ہوتے ہیں ۔ایک زمانے میں ناٹک کیلئے عورت کا پارٹ مرد کرتے تھے لیکن اب کا معاملہ کچھ اور ہے۔ سرائیکی کے ایک شاعر کا شعر دیکھیں ،
مانی پاولی تریمت والا پارٹ کریندا ہئ
ایں ناٹک وچ پارٹ اپنڑے کوں تریمت کیتا ہے
مرد شاعر ،دانشور ،ادیب جتنا عورت کے حق میں چلا جائے اور ان کے حق میں لکھے لیکن جب تک عورت خود اپنے حق کیلئے کھڑی نہیں ہو گی بات نہیں بنے گی ۔
مجھے تو لگتا ہے جیسے عورت نے مرد کی نفسیاتی برتری قبول کر لی ہو، اور عورت جیسے عورت کی دشمن ہو۔ راقم کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے ” تریمت نال ہک گالھ ”
اے کیا اڑی
پتر کوں مکھن چوکھا ڈیویں
دھی دی خالی روٹی مکھیں
تیڈے چیتے کینجھا کھٹکا
تیکوں پتہ نئیں پیا لگدا
اپنڑی ذات مریندی پئ ہیں
لمبی رات کریندی پئ ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا