ہمارے مخدوم ملتِ ملتانی قبلہ مخدوم شاہ محمود قریشی حضرت شاہ رکن عالم ملتانی رحمت اللہ کے سالانہ عرس میں مصروف تھے۔ نذر ونیاز اور تحائف سنبھالتے تین دن لگ گئے۔
اسی دوران امریکہ نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر عراق میں واردات ڈال دی۔
پیر سائیں مصروف ناہوتے تو بھسم کرا دیتے اس امریکی ڈرون کو۔
تین دن کی مصروفیات کے بعد پیر سائیں شب بھر سستائے اور پھر بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے سینیٹ میں دھواں دھار انداز میں پالیسی بیان جاری فرمایا۔
ان کا خطاب مقدس سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل حضرت بہاوالحق ذکریا ملتانیؒ کے عرس کے موقع پر ان کا اپنے بھائی مرید حسین قریشی سے جھگڑا ہوا تھا
(اب صلح ہوچکی دونوں شیر وشکر ہیں) تو انہوں نے اس جھگڑے کے کچھ دن بعد عرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بالکل اسی انداز تکلم اور متانت کےساتھ خطاب کیا اور ان کے مریدین نے ”حق بہاوالحق“ کے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
ہمارے ملتانی مخدوموں جیسا صلح کل روئے زمین پر دوسرا کوئی نہیں،
ملتانی یا سرائیکی بات ایک ہی ہے۔ ہم صلح جو قسم کے لوگ ہیں، لڑائی جھگڑوں سے دور اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔
حالات کیسے بھی ہوں صبح ناشتے میں دال مونگ اور ڈولی روٹی لازم ہے اور دن بھر کی تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد شام ڈھلے گھروں کو لوٹتے ہوئے موتئے کے پھولوں کا ہار گھر لے جانا نہیں بھولتے۔
آپ نے اگر میرے ملتانی مخدوم سائیں کی سینیٹ والی تقریر سنی پڑھی ہو اور ملتانیوں کے مزاج، ماحول سے واقف ہوں تو سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ تقریر کم اور موتیا کے پھولوں کے ہار زیادہ تھے۔
یہ ہار مخدوم سئیں لائے کیوں اور کس کے گلے میں ڈالنے کے آرزومند تھے، تقریر خود بتا رہی تھی،
قلم مزدور اس پر کیا عرض کرے۔ عرض کرنا بنتا بھی نہیں، مخدوم صاحب ملتانی ہونے کی وجہ سے مجھے بہت عزیز ہیں،
خود جو جی چاہے ان کو کہہ لوں لیکن اگر بڑے بھائیوں کی طرح قابل احترام خالد مسعود خان سمیت کوئی دوسرا انہیں کچھ کہے تو قلم کو تلوار بنا کر میدان میں اُترتے ہوئے اس کے سوا کچھ نہیں سوچتا کہ میرے ملتانی مخدوم پر حملہ ہوا ہے۔
بہت سارے دوست پیپلزپارٹی کے دور کی طرح (جب وہ وزیرخارجہ ہوا کرتے تھے) اب بھی اکثر سوال اُٹھاتے ہیں آخر مخدوم شاہ محمود قریشی کو وزیرخارجہ کیوں بنایا گیا؟
جواباً یہی عرض کرتا ہوں کہ "پاکستان ایسے ملک میں ایک گدی نشین حاضر پیر کو ہی وزیرخارجہ ہونا چاہئے”۔
پیر کسی کو ناراض نہیں کرتا، یہاں تک کہ جس مرید اور عقیدت مند کی مراد بٙر نہ بھی آئے وہ بھی یہ کہتا ہے کہ پیرسائیں نے تو دعا کی تھی بس اللہ کریم کو منظور نہیں تھا
ویسے "فیس” تو پوری دی تھی دعا کےلئے۔
اب اس بھولے بھالے مرید اور عقیدت مند کو کون سمجھائے کہ پیر نہیں اُڑتا مرید پیر کو پرواز کرواتے ہیں۔
دو دن قبل کی شام کے ابتدائی حصہ میں جب وہ سینیٹ میں خلیج کی تازہ ترین صورتحال اور بغداد میں رونما ہوئے المئے پر بات کر رہے تھے تو فقیر راحموں نے دوبار ان کی نظر اُتاری۔
یہ بنتا بھی تھا اور کس میں ایسا دل گردہ اور جگر ہے کہ وہ اردو کو انگریزی میں بھیگو کر امریکہ کی مت مارے اور ایران کو تسلی دے،
قاتل بھی خوش اور مقتول کے ورثا بھی کلمات تعزیت پر کہیں
”جی سائیں بالکل اللہ کی رضا یہی تھی“
پیر سئیں کے اس اعلان پر میں اور فقیر راحموں ہی کیا ساڑھے چھ کروڑ سرائیکی بہت خوش ہیں کہ
”ہم کسی کے مفادات میں فریق نہیں بنیں گے“۔
اچھا باقی ماندہ ساڑھے پندرہ کروڑ پاکستانیوں کا ہم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا وہ خوش ہوں یا ناراض اپنی بات خود دیکھیں لکھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ پیر کی زبان سے ہمیشہ کلمہ خیر ہی نکلتا ہے اسی کےلئے تربیت ہوئی ہوتی ہے۔
پیر کو معلوم ہوتا ہے کہ جلال کا مظاہرہ کب کرنا ہے، ناراض کب ہونا ہے اور اُلٹے ہاتھوں سے دعا کب کرنی ہے۔
پیر سائیں درست کہتے ہیں ہمیں بدلے کی بھاونا سے دور رہنا چاہئے۔
کاش یہ بات واقعی درست ہوتی کیونکہ مخدوم صاحب جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کے چہرے کے تاثرات کچھ اور تھے اور زبان مبارک سے کچھ اور ارشاد ہو رہا تھا۔
ایک "کاریگر” پیر کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ سامعین ومریدین ان کے پرجوش خطاب کے سحر میں جکڑے جائیں۔
یہ جادو یا نظربندی نہیں ہوتی کرامت عالیہ وعظمیٰ ہوتی ہے، اسی سے تو کام بنا رہتا ہے مریدین آس میں رہتے ہیں۔
قطعاً کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ پیر سائیں اپنے بریف کیس میں چیونگم کے سائز کے ایٹم بم بھریں اور ایران پہنچ کر سیدی علی خامنہ ای سے کہیں،
حضور دعا کرنی ہے یا جواب دینا ہے؟
فقیر راحموں نے پوچھا شاہ جی! اگر ایرانیوں نے کہا مرشد پاک جواب دینا ہے تو پھر؟۔
عرض کیا، مرشد بہت اطمینان کےساتھ کہہ دیں گے۔
”ونج ووئے ٹرمپو آ تیڈا ککھ نہ رہے“
لاریب ہمیں فریق نہیں بننا چاہئے کیوں؟
اس سوال کا جواب وفاقی وزیرجناب نورالحق قادری کے تازہ بیان میں موجود ہے۔
اب قادری صاحب بھی پیر ہیں اور مخدوم صاحب
وہ تو خیرجنوبی ایشیاءکے "پیران پیر” سلسلہ سہروردیہ کے سب سے بڑے پیر ہیں۔
ایک طرف میرے ملتانی مخدوم ہیں اور دوسری طرف ذاتی طور پر قابل احترام محب مکرم نورالحق قادری۔
میری اور فقیر راحموں کی پریشانی یہ ہے کہ کس کے بیان کو درست سمجھیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں ہم فریق نہیں بنیں گے۔
قادری صاحب کہتے ہیں ہم سعودیہ عرب کےساتھ کھڑے ہوں گے،
چلیں یہ دوپیروں کے ارشادات ہیں وہ خود ہی آپس میں نبٹ لیں گے۔
ہم فقط یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ایران امریکہ کشیدگی میں عقیدوں کا مچ مارنے کی ضرورت نہیں۔
اب دیکھ لیجئے کہ امریکی اقدامات کی وجوہات اور پس منظر کےساتھ فقیر راحموں کو یہ بھی معلوم ہے کہ حالیہ امریکی اقدام درحقیت داعش کےخلاف عراق میں ساتویں اور آخری آپریشن سے قبل ہوا ہے تو اس کا مقصد کیا ہے
لیکن چونکہ ہمارے ملتانی مخدوم نے کہہ دیا ہے کہ ہم فریق نہیں ہیں اسلئے وہ باتیں کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جن سے صدر ٹرمپ کا دل دُکھے۔
البتہ مخدوم صاحب سے یہ درخواست ضرور ہے کہ ہوسکے تو ایک آدھ دعا ہی کردیں،
ہمارے حالات بہتر ہوں، مہنگائی کم ہو اور ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ