روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں عدالتی فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے اور معاملے کو لارجرز بینچ کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دی ہیں ۔
دوسری طرف آرمی ایکٹ میں آئینی ترمیم اسمبلی میں لانے کیلئے حکومت نے اپوزیشن سے رابطہ کیا ہے کہا جاتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی آرمی ایکٹ میں آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
آئین میں ترمیم کوئی نئی بات نہیں ہے ، ابھی حال ہی میں فاٹا نشستوں میں اضافے کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت پڑی تو متفقہ طورپر آئین میں ترمیم کر دی گئی ۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ آرمی ایکٹ میں آئینی ترمیم کا مسئلہ خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہونا جائے ۔
سوال سے سوال جنم لیتے ہیں ، وسیب کے لوگوں نے ایک سوال کیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے فکر مند ہیں جبکہ صوبے کے وعدے پر کیوں نہیں ؟ مزید یہ کہ فاٹا نشستوں کے اضافے پر آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے ، نئے صوبے کے مسئلے پر کیوں نہیں ؟
صوبے کے لئے کام کرنے والے سرائیکی جماعتوں کے اتحاد نے اپنے اجلاس میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں آئینی ترمیم کے ساتھ صوبے کا مسئلہ بھی شامل کیا جائے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کا معاملہ ہے جبکہ نیا صوبہ وسیب کے کروڑوں افراد کے بنیادی انسانی مسائل کا حل ہے۔
اس مسئلے پر مقتدر قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق وزیرمملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا ہے کہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبے کیلئے کوششیں کر رہی ہے جبکہ ن لیگ رکاوٹ ہے ۔
اس سے پہلے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے چند روز قبل کہا کہ ہمارے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں لہٰذا ہم صوبہ نہیں بنا سکتے ۔ تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ صوبے کے لئے اکثریت نہیں البتہ سول سیکرٹریٹ کیلئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار جلد فیصلہ کریں کہ سیکرٹریٹ بہاولپور ، لودھراں اور ملتان میں سے کس جگہ بنانا ہے۔
جہاں تک ن لیگ کی مخالفت کی بات ہے تو ہمارا مشورہ ہے کہ صوبے کی آئینی ترمیم کو آرمی ایکٹ ترمیم کے ساتھ منسلک کیا جائے ، اگر ن لیگ مخالفت کرے گی تو سب کو پتہ چل جائے گا ، جہاں تک فیاض چوہان کی بات ہے تو لوگ سوال کر رہے ہیں کہ سرائیکی صوبے کیلئے تو ان کے پاس اکثریت نہیں ، فاٹا نشستوں میں اضافے کے مسئلے پر اکثریت کہاں سے آ گئی تھی ؟
جہاں تک جہانگیر ترین کی سب سول سیکرٹریٹ کی بات ہے تو تحریک انصاف کے ووٹروں کاکہنا ہے کہ ہم سے صوبے کے نام پر ووٹ لئے گئے، سیکرٹریٹ کے نام پر نہیں ، صوبے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں ۔
جب ہم بات کرتے ہیں کہ نیا صوبہ وسیب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ضرورت ہے تو اس کے پیچھے یہ سچائی موجود ہوتی ہے کہ صوبہ بننے سے وفاق متوازن ہوگا۔ سینیٹ کو وقار اور توازن نصیب ہوگا اور چھوٹے صوبے سکھ کا ساسنس لیں گے ، اس سے بڑھ کر کیا مذاق ہوگا کہ 60 فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور 40 فیصد آبادی کے تین صوبے، اس کا مطلب ہے کہ ایک پہیہ ٹریکٹر اور تین پہیے کار کے ، وفاق کی گاڑی کس طرح چلے ؟
پنجاب کے بڑے حجم کی وجہ سے چھوٹے صوبے احساس محرومی کا شکار ہیں ۔ آج جو بھی بات کرتا ہے پنجاب اور اس کے بڑے حجم کے خلاف کرتا ہے۔ صوبہ بن جانے سے پنجاب کے وہ لوگ جو استحصال میں شریک نہیں وہ جو محنت مزدوری کرتے ہیں یا کھیتوں میں کاشتکاری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ، پنجاب کی نفرت اور گالیوں کا نشانہ بننے سے بچ جائیں گے۔
نیا صوبہ بننے سے پنجاب کے عام آدمی کا کوئی نقصان نہیں ، بلکہ اس سے پنجاب کی گڈ گورننس بہتر ہوگی اور ترقی ، خوشحالی اور کامیابی کے نئے دروازے کھلیں گے ۔
ایک سوال یہ کیاجاتا ہے کہ صوبے کا خرچ کہاں سے آئے گا؟ وسیب سات دریاؤں کی سرزمین ہے ، یہاں سب سے زیادہ ہیڈ ورکس اور بیراجز ہیں جن میں تونسہ بیراج ، چشمہ بیراج، جناح بیراج ، ہیڈ پلہ ، ہیڈ محمد والا ، ہیڈ تریموں ، ہیڈ پنجند ، ہیڈ سدھنائی شامل ہیں ۔ عمومی طور پر وسیب کو روہ روہی تھل دامان کہا جاتا ہے ۔
نیلی بار ،گنجی بار، ساندل بار ، کرانہ بار ، کچھی اور راوا کے علاقے اس میں شامل ہیں ۔
وسیب کی پیداوار میں یورنیم ، گندھک ، سنگ مر مر جپسم ، کوئلہ ،تیل اور گیس کے ذخائر ، لوہے کے ذخائر ، سرخ پتھر، بھاری پانی ، ملتانی مٹی ، چونے کا پتھر اور دوسرے معدنی دولت شامل ہے۔
گوشت اور اون والے جانور وسیب میں بہت زیادہ ہیں ۔ یورنیم 100 فیصد ، عام پتھر 100 فیصد، جپسم 92 فیصد ، آم 90 فیصد ، قالین 80 فیصد ، پھٹی 80 فیصد ، گوشت 2 فیصد، چمڑا 70 فیصد ، دود مکھن 70 فیصد ، کھل بنولہ 80 فیصد ،گندم 65 فیصد، تھوم 5 فیصد، سبزیاں 55 فیصد اور قیمتی پتھر 30 سے پچاس فیصد وسیب میں پیدا ہوتا ہے۔
دریا سرائیکی دھرتی پر بہتے ہیں ، جب سندھ دریا کالا باغ کے مقام پر سرائیکی وسیب میں قدم رکھتا ہے تو میانوالی ،بھکر، لیہ ، دیرہ غازی خان ،راجن پور ، رحیم یارخان سے ہوتا ہوا ہیڈ گڈو سے سمندر میں جا گرتا ہے، اسی طرح چناب ، راوی ، ستلج ، جہلم اور دوسرے دریا سرائیکی دھرتی سے گزرتے ہیں ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وسیب وسائل سے مالا مال خطہ ہے جو کہ پورے ملک کی ستر فیصد غذائی ضروریات بھی پوری کر رہاہے۔
قانون اور آئین کا حوالہ دوں گا کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح بیرسٹر تھے اور پوری دنیا ان کی آئینی اور قانونی مہارت کی معترف تھی ۔ انگریز حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے جب سندھ کو بمبئے کا حصہ بنایا تو حضرت قائد اعظم نے ہندوستان کی عدالت عالیہ میں مقدمہ دائر کیا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ سندھ کے لوگوں کی رضا مندی کے بغیر ہوا ، کسی طرح کا کوئی الیکشن یا ریفرنڈم نہیں ہوا ، مزید یہ کہ تاریخی ،ثقافتی ، لسانی اور جغرافیائی طور پر سندھ کا بمبئے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لہٰذا آمرانہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سندھ بحال کیا جائے ،
چنانچہ فیصلہ قائد اعظم کے حق میں ہوا۔ حقائق پر دیکھا جائے تو یہی مقدمہ وسیب کا بھی ہے ، صوبہ ملتان کو بھی رنجیت سنگھ کے بعد انگریز نے پنجاب اور مابعد 1901ء میں ٹانک ، ڈی آئی خان ، بنوں وغیرہ نئے بننے والے صوبہ سرحد کا حصہ بنا دیئے گئے ، وسیب کے لوگوں کو صوبے کا حق دیاجائے کہ وہ صوبہ مانگ رہے ہیں، الگ ملک نہیں ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ