نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ میں دھوپ ۔۔ گلزار احمد

اس چولھے کے تین طرف ہم کھجور سے بنی پھوڑیاں ڈال کے کھلے بیٹھتے چوتھی طرف لکڑیاں اور اپلے رکھنے کی جگہ تھی

جمعتہ المبارک کے روز ڈیرہ میں تقریبا” پندرہ دنوں کے بعد خوبصورت دھوپ نکلی اور کم از کم دن کا درجہ حرارت تو نارمل ہو گیا جو 19 درجے سینٹی گریڈ تھا۔ صبح جب سورج کی سنہری کرنیں درختوں پر پڑیں تو وہ موسم بہار کا رنگ دکھانے لگے۔

ادھر محکمہ موسمیات نے بارشوں کی پیشگوئی کر رکھی تھی اور ہم سوچ رہے تھے بارش سے سردی مزید بڑھے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے ڈیرہ میں گیس کی شدید قلت ہے اور LPG کے ریٹ برابر بڑھ رہے ہیں۔

حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ اب مشکل دن ختم ہوئے اور نیا سال خوشی اور ترقی کی نوید لے کر طلوع ہو گا مگر لگتا ہے حکومت کو بتائے بغیر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

بازار میں تقریبا” ضرورت کی تمام چیزوں سبزیوں ۔پھلوں ۔کریانہ کے ریٹ روزانہ کی بنیاد پر بڑھا دیے جاتے ہیں ۔ٹرانسپورٹرز چیخ رہے ہیں کہ ان کے جرمانوں میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اب یہ سب کچھ کون کر رہا ہے؟ سمجھ نہیں آ رہی۔ اس ساری کہانی میں IMF اور کچھ بین الاقوامی ادارے بہت خوش ہیں کہ پاکستان دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔

خیر بات شروع ہوئی تھی گیس کی شدید قلت سے تو آجکل ہمارے مکانات اس طرح بنائے گیے ہیں کہ ان میں لکڑی جلانے کا آتشدان تک نہیں ہوتا۔پہلے ہمارے کچے کوٹھے کے درمیان میں ایک چوکور بارڈر کا چولھا ہوتا تھا اس میں لکڑیوں سے آگ جلتی اور کوکنگ بھی ہوتی اس کوکنگ کے دوران سارا کمرہ گرم ہو جاتا۔

اس چولھے کے تین طرف ہم کھجور سے بنی پھوڑیاں ڈال کے کھلے بیٹھتے چوتھی طرف لکڑیاں اور اپلے رکھنے کی جگہ تھی۔ اب جدید دور میں ہم نے زندگی کو آسان کرنے کے بجائے الٹا مشکل بنا لیا۔ بجلی گیس نہ ہو تو نہ کھانا پکانے کا انتظام نہ سردی سے بچنے کی سبیل۔ہمارے پکے مکانات گرمیوں میں چھت سے آگ برساتے ہیں اور سردیوں میں فریزر بن جاتے ہیں۔ میں نے دو کمروں کے نیچے ایک بیسمنٹ بنوایا ہے تو وہاں سردی اور گرمی سے بچنے کا ایک ٹھکانہ موجود ہے۔ میں سخت گرمی اور سخت سردی میں اسی بیسمنٹ میں قید رہتا ہوں۔دوستوں سے فون پر بات کرتا ہوں۔کتابیں پڑھتا ہوں اور ورزش بھی اسی بیسمنٹ میں کرتا ہوں۔ یہ شعر اسی موقع پر کہا گیا ہو گا

؎ اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اب ان سخت سردیوں کی شاموں میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے یہاں آ کے ملیں میں تو فریزنگ درجہ حرارت میں باہر نہیں آ سکتا۔ کچھ مہربان دوست آ جاتے ہیں تو خوب گپ شپ اور شام سہانی ہو جاتی ہے ورنہ پھر وہی تنہائی ۔۔

اب آپ ہماری حالت دیکھیں کہ شھر میں ایک دن سورج نکلا تو اس پر کالم لکھے جا رہے ہیں ۔ اب شام ہو چکی ہے آج شاعر بھی اپنا کلام پڑھ رہے ہونگے کہ جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی۔

بہر حال آج کے روشن سورج نے مجھے باہر نکل کر دوستوں سے ملنے کا موقع فراہم کر دیا جو اللہ کی خاص مہربانی ہے۔روزنامہ اعتدال جا کر چیف ایڈیٹر عرفان مغل سے بڑے دنوں بعد ملا۔

اسلام آباد سے آے ہوے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پرانے شاگرد ڈاکٹر خلیل احمد جو ان دنوں ڈیرہ کسی بارات کے لیے آے ہوے ہیں وہ بھی بہت عرصے کے بعد ملنے آ گیے۔ مجھے اپنے شاگردوں کی کامیابیوں پر دلی خوشی ہوتی ہے اور ڈاکٹرخلیل نے بھی بہت چھوٹی عمر میں Phd مکمل کی ہے اور سنٹرل پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

زبیر بلوچ ۔حافظ مدثر سے بھی کئی روز کے بعد ملاقات ہوئی۔ زبیر بلوچ کے دفتر میں منہاج سکندر بلوچ صاحب بھی اچانک آ گیے تو ان سے ملکر بہت خوشی ہوئی۔

ڈیرہ میں نکلنے والی آج کی دھوپ نے کتنے دوستوں کو ملنے کا موقع فراہم کیا ہو گا اور ہجر کو وصال بنایا ہوگا اس کا ڈیٹا تو میرے پاس نہیں لیکن چہل پہل سے یہی لگتا۔آج ہمارا پوتا مجتبی حسن خان ماشاء اللہ ایک سال کا ہو گیا اور اچھے موسم کی وجہ سے فیملی نے سالگرہ بھی منا ڈالی حالانکہ پہلے موسم کی خرابی کی وجہ سے پروگرام ملتوی کیا گیا تھا۔

اب دیکھتے ہیں آج رات کو سردی کیا رنگ دکھاتی ہے کیونکہ محکمہ موسمیات بار بار بارش اور سرد موسم کی پیشگوئی کر رہا ہے اور ہماری غریب آبادیوں کی سڑکیں کچی ۔نالے بند ۔گیس بجلی کا بحران الگ۔ سورج کی دھوپ سردیوں کا میوہ ہے ورنہ لمبی کالی سرد راتیں جاگ جاگ کر اور کروٹیں بدل کر کاٹنا تو مشکل ہے بڑا مشکل ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
تُو ھے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دُکھ ۔۔۔
تُو میرے گھر میں کسی روز اُتر شام کے بعد ۔
گلزار احمد

About The Author