محترمہ بینظیر اور پیپلزپارٹی پر این آر او کی پھبتی کستے انجمن عاشقان جاتی امراء والے بھول جاتے ہیں کہ نوازشریف اسی این آر او کی بدولت ہی وطن واپس آپائے تھے
کیونکہ محترمہ نے این آر او کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وطن پہنچتے ہی نوازشریف کی واپسی کا مطالبہ کر دیا تھا۔
اس سے قبل نوازشریف لندن سے ایک طیارے کے ذریعے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اُترے تو انہیں واپس جدہ بھجوا دیا گیا
چند دن بعد سعد الحریری اور ایک عربی شہزادہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرس کر کے ہمیں سمجھا رہے تھے کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان معاہدہ جلاوطنی کی مدت 10سال تھی
نوازشریف نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے ۔
کچھ پیچھے چلیں تو دسمبر دوہزار کی ایک شب نوازشریف معاہدہ جلاوطنی کے عوض اپنے خاندان سات ملازمین سمیت سعودی عرب سے بھجوائے گئے شاہی طیارے میں ملک چھوڑ گئے تھے۔
اس معاہدہ جلاوطنی کا پہلے پہل یکسر انکار ہوتا رہا، پھر پانچ سال کے معاہدے کا اعتراف ہوا لیکن سعدالحریری
(ان کے والد نے یہ معاہدہ کروایا تھا امریکہ اور سعودی عرب کے نمائندے کی حیثیت سے)
کی پیش کردہ دستاویزات نے حقیقت دوچند کردی۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ بارہ اکتوبر1999ء کا پرویز مشرف کا اقدام غیرقانونی تھا مگر 13ماہ کی جیل نے اس وقت کے فوجی حکمران سے دس سال کیلئے سیاست سے دستبرداری کے عوض جلاوطنی کو ترجیح دی۔
ان کے حامی تب اور آج بھی سمجھتے ہیں جان بچانے کی وہ حکمت عملی درست تھی لیکن بینظیر بھٹو کا این آر او اور اسی این آر او کی چھتر چھایا میں نوازشریف کی واپسی پر دو آراء ہیں۔
اولاً بینظیر نے فوجی آمر سے ڈیل کرلی، ثانیاً یہ کہ نواز شریف کی واپسی ان کا حق تھا۔
غالباً اسی حق کی بنا پر چودھری افتخار کی عدالت نے انہیں بغاوت کیس اور دو دوسرے مقدمات میں ہوئی سزاؤں کیخلاف اپیل کی مدت گزر جانے کے باوجود اپیل کا حق دیا اور این آر او غیرقانونی قرار دیدیا۔
”میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو”۔
اچھا یہ فرمایئے کہ این آر او کے تحت نواز شریف دور کے وہ مقدمات جو بند ہوئے تھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کھل گئے لیکن میاں نوازشریف کیخلاف مقدمات کیوں نہ بحال ہوئے؟۔
نون لیگ والے کہتے ہیں وہ انتقامی مقدمات تھے، معاہدہ جلاوطنی کے تحت ختم ہوگئے۔ بہت خوب تو کیا یہ این آر او نہیں تھا؟۔
ایک عزیز دوست نے چند دن اُدھر سوشل میڈیا پر بھٹو صاحب کو آمر قرار دیتے ہوئے ان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کو جواز کے طور پر پیش کیا۔
عرض کیا یہ تو بتا دیجئے کہ ایل ایف او کے تحت چلتے ملک میں کس قانون کے تحت انتقال اقتدار ہو پاتا؟
جواب میں پھبتی کسی بھٹو ایوب کی پیداوار تھے۔
ان کالموں میں ایک سے زیادہ بار عرض کرچکا بھٹو سکندر مرزا کے دور میں عملی سیاست میں آئے، سکندر مرزا نے انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کا سربراہ بنا کے بھیجا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، واپسی پر انہیں وفاقی کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا، یہ1957ء کی بات ہے اسی کابینہ میں ایوب خان وزیر دفاع تھے۔
اکتوبر1958ء میں ایوب خان نے سکندرمرزا کی حکومت کو رخصت کر کے اقتدار سنبھال لیا۔
بعد میں بھٹو بھی ان کی کابینہ میں شامل ہوئے، مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے وزیرخارجہ بنے اور یہی وزارت ان کی ملکی وعالمی شہرت کا باعث بنی۔
بھٹو ایوب سے الگ ہوئے، پیپلز پارٹی بنائی، ایک جدوجہد ہے دورحکمرانی اور پھر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئے۔
بھٹو صاحب پر پھبتی کستے اس دوست سے پوچھا کہ نوازشریف کو اقتدار کے ایوانوں میں متعارف کروانے والے بریگیڈئیر قیوم قریشی تھے پھر انہوں نے ترقی کی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور جنرل حمید گل کے بنوائے اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ بھی مشرف دور میں زیرعتاب آئے، تو مزاحمت کی بجائے جلاوطنی کا معاہدہ کیوں کر لیا؟۔
جواب ملا پچھلی باتیں چھوڑیں۔
ارے واہ آپ کہیں درست اور اگر تاریخ کی اسی کتاب کا دوسرا ورق پڑھا جائے تو غلط۔
سچ یہی ہے کہ نون لیگ بھٹو خاندان سیاست اور پیپلز پارٹی کی نفرت پر قائم ہوئی۔1988ءمیں جنرل حمید گل کا تشکیل دیا اتحاد آئی جے آئی ہو یا پھر اگلے برسوں میں تنہا پرواز کرنے والی نون لیگ پنجاب سمیت ملک کے دوسرے حصوں سے بھٹوز کی نفرت کا شکار طبقات ہی اس میں جمع ہوئے۔
نون لیگ کے ووٹ بنک کا بڑا حصہ آج بھی بھٹوز سے نفرت کا شکار طبقات پر مشتمل ہے۔
ان طبقات کا خیال ہے، میاں نوازشریف کا میموگیٹ سکینڈل سپریم کورٹ سے مدعی کے طور پر رجوع کرنا درست اور زرداری کا بلوچستان حکومت گرانے میں کردار اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کے لیے تھا۔
سینیٹ کے انتخابات اور چیئرمین وائس چیئرمین کے چناؤ کے وقت نون لیگ سے اتحاد نہ کرنا جمہوریت سے غداری تھا۔
یہ بھی بجا نہیں
لیکن کیا اپنے پانچ سالہ دورحکومت میں نون لیگ کا رویہ سیاسی تھا، دوسری بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں سیاسی داؤپیچ کھیلتی ہیں، سینیٹ انتخابات میں حکومت کیخلاف حزب اختلاف کی جماعتیں مشترکہ اُمیدوار لائیں نون لیگ اس وقت حکمران جماعت تھی
رضا ربانی کا دانہ ڈالنے والوں نے نہال ہاشمی اور مشاہد اللہ خان جیسے سیاسی کارکنوں کی بجائے جہیز میں ملے راجہ ظفرالحق کو اپنا اُمیدوار کیوں بنایا؟
قصے بہت ہیں، جناب شہباز شریف اپنی بڑھکوں اور پیٹ پھاڑنے کے اعلانات کی معافی مانگ چکے اس کا ذکر اب مناسب نہیں،
لاریب سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا چاہئے ماضی سے سبق حاصل کرکے لیکن اگر نوازشریف کی ضمانت انصاف کا بول بالا اور زرداری کی ضمانت ڈیل کہلائے تو چار اور ہوتی سرگوشیوں پر دھیان دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا کج اس کی میڈیا مینجمنٹ کا نہ ہونا ہے، نون لیگ کی کامیابی کے پیچھے اچھی میڈیا مینجمنٹ ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جب سن دوہزار یا اس سے ایک آدھ سال پہلے دنیا میں تشریف لائی نسل اخبارات کی سرخیوں اور سیاپا فروشوں کے بھاشنوں کو ایمان کا چھٹا رکن بنا کر پیش کرتی ہے تو بلکل افسوس نہیں ہوتا
لیکن جب نون لیگ کے حامی متوالے اور میڈیا منیجرز تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے سول سپرمیسی کی دہائی دیتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ سیاسی عمل صرف اس صورت آگے بڑھ سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کی باگ دوڑ سیاسی کارکنوں کے پاس ہوگی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر