پاکستان میں نئے سال کا آغاز سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کے اس جھوٹے دعوے اور پُرفریب وعدے سے ہوا کہ عوام کو مشکل وقت سے گزرنا پڑا لیکن 2020 میں پاکستان اوپر کی طرف جائے گا۔ یہ دعویٰ بھی عمران خان کے ماضی کے دعووں کی طرح جھوٹ پر اس لئے مبنی ہے کہ نہ تو ابھی تک پاکستان نے اپنے بنیادی آئینی ریاستی مسائل حل کئے ہیں، نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام آیا ہے، نہ ہی ملک کی سفارتی و خارجی سمت کا تعین ہوا ہے، نہ ہی حکمرانوں کو ابھی تک معیشت کی کوئی سمجھ لگی ہے اور نہ ہی حکومت پارلیمان کو سنجیدگی سے چلا کر عوامی مفادات میں کوئی قانون سازی کرتی نظر آ رہی ہے۔ اگر صورتحال کا یہی سٹیس کو رہتا ہے، تو عوام کو 2020 میں 2019 سے بھی زیادہ مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا۔
جب سے عمران خان سیاست میں آئے ہیں، انہوں نے جھوٹ بولنے کے کئی ریکارڈ قائم کئے ہیں، اور اپوزیشن رہنما بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر جھوٹ بولنے کا کوئی ورلڈکپ ہوتا تو عمران خان ورلڈ چمپئین ہوتے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم نے سلیکشن سے پہلے ہر جگہ جھوٹ بولا کہ 90 روز میں کرپشن ختم کروں گا۔ 100 دن کا تاریخی اصلاحاتی پروگرام بھی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا، جسے بعد میں 6 ماہ کے پروگرام میں تبدیل کر دیا گیا، نتیجہ پھر بھی صفر نکلا۔ اس ناکامی کے بعد اپنی تمام نالائقیوں کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر 70 سالہ بگاڑ کا رونا شروع ہوا۔
عمران نیازی نے دعویٰ کیا کہ 8000 ہزار ارب ٹیکس جمع کر کے دکھائوں گا، عوام ٹیکس اس لئے نہیں دیتے، چونکہ حکمران چور ہیں۔ اب اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے لاجک ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو ملک ترقی کیسے کرے گا۔ یعنی آپ جھوٹ بول رہے تھے، نہ آپ کو زمینی حقائق کا علم تھا اور نہ ہی آپ اور آپ کی پارٹی کے پاس کوئی پروگرام۔ آپ کے پاس تھا تو بس سلیبریٹی سٹیٹس اور جھوٹوں سے بھری زنبیل۔
ماہرین کے مطابق نیا سال گزشتہ برس سے بھی زیادہ تلخ اور سخت ہونے جارہا ہے اس برس مزید 80 لاکھ پاکستانی شہری خط غربت سے نیچے گر جائیں گے اور مزید دس لاکھ کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے۔
نئے سال کی مبارکباد حکومت نئے منی بجٹ کی صورت میں دینے جا رہی ہے۔ یہ عوام پر معاشی حملہ ہے جس کے تحت عوام پر گیس اور بجلی کے بم گرائے جائیں گے۔ نیپرا نے بجلی ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، اضافے سے صارفین پر ساڑھے 14 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا اور یہ اضافہ صارفین سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں جنوری کے بلوں میں وصول کریں گی۔ سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیو ٹی میں اضافہ کیا جائے گا۔ جس سے شہریوں کی زندگی بری طرح متاثر ہونے جا رہی ہے۔
قیمتوں میں حالیہ اضافہ اور حکومتی نااہلی ایک اور انتہائی خطرناک مہنگائی کی سونامی کو جنم دے گی۔
ترجمان بلاول بھٹو زرداری سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ منی بجٹ عوام پر معاشی حملہ ہے، جس کی پی پی پی بھرپور مخالفت کرے گی۔ ایک بیان میں ترجمان بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تحریک ناانصاف حکومت عوام کی ٹوٹی کمر پر مزید ڈیڑھ سو ارب کا بوجھ لاد رہی ہے، رواں سال پہلے ہی عوام کے خون پسینے سے سات سو پینتیس ارب اضافی ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑا گیا۔ اب پھر بجلی، گیس اور سیلز ٹیکس بڑھا کر عوام پر مزید ڈیڑھ سو ارب کا ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت غریبوں پر ایک طرف سے نہیں چاروں طرف سے حملے کر رہی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8 لاکھ مستحق افراد کو نکالنا غریب دشمنی کی بدترین مثال ہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ قرضہ نہ لینے کا دعویٰ کرنے والوں نے ڈالروں کے عوض ملکی خودمختاری گروی رکھ دی، عمران خان نے کرسی کی خاطر معاشی اور خارجہ پالیسی تک غیروں کے حوالے کر دی ہے۔
عمران خان کا دعویٰ تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لوں گا، مگر اب عمران خان نے ساری کی ساری معیشت آئی ایم ایف کے حوالے کر دی ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ غیروں سے بھیک نہیں مانگوں گا، اب ملک کی خارجہ پالیسی گروی رکھ کر اتنی زیادہ بھیک مانگی گئی ہے کہ اب پاکستان آزادانہ سفارتی سطح پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔
حکومت کو اہم ترین قانون سازی کے معاملات طے کرنے ہیں، جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی، نیب آرڈیننس کے حوالے سے قانون سازی اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی سنگین غداری کے مقدمہ میں سزا جیسے معاملات اہم ہیں، حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ میں گذشتہ ہفتے نظرثانی درخواست دائر کی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے ترمیمی بل تیار کر لیا گیا ہے، کابینہ کی منظوری کے بعد آرمی ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا۔
جب ملک و قوم کو ہر محاذ پر انتہائی اہم چیلنجز کا سامنا ہے، اُس وقت ایک کٹھ پتلی سلیکٹڈ وزیراعظم کو پریشان حال قوم کے کندھوں پر لاد کر پارلیمینٹ کو مفلوج اور آئین کو ساکت کر دیا گیا ہے۔ گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے حکومت کو ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنانے، پارلیمنٹ کو غیر موثر بنانے، اور آئین پر عمل درآمد نہ ہونے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں پارلیمنٹ خاص طور پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، سینیٹ جو تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی کا ادارہ ہے۔ سینیٹ جو کبھی سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے دور میں انتہائی متحرک نمائندہ ادارہ تھا۔ اب صورت یہ ہے کہ سلیکٹڈ دور میں سینیٹ کا آخری اجلاس تقریباً 4 ماہ قبل 29 اگست کو ہوا تھا جو 3 ستمبر تک جاری رہا تھا۔
اس پارلیمانی بے حسی پر رضا ربانی حکومت پر سخت برہم ہوئے اور انہوں نے کہا کہ سینیٹ کا اجلاس نہ بلانا اس ایوان کا استحقاق مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اجلاس نہ بلائے جانے کے دوران 16 آرڈیننس جاری کیے گئے۔ جو بات کر رہا ہوں وہ اس ایوان کا استحقاق مجروح ہونے سے متعلق بھی ہے، ارکان کو جان بوجھ کر اپنا کام کرنے سے روکا گیا، محسوس ہوتا ہے کہ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی۔
یہ وہ زمینی حقائق، بڑھتی مہنگائی کے اعداد وشمار، حکومتی بے حسی، اور غیر سنجیدگی کے مظاہر ہیں، جو اس بات کی پیشں گوئی کر رہے ہیں کہ عمران خان کے قوم کو دلاسے اور دعوے ایک بار پھر جھوٹے ثابت ہونے جا رہے ہیں۔ اگر یہ سلیکٹڈ حکومت قوم پر مسلط رہتی ہے تو نیا سال بھی گزرے سال کی طرح عوام کی زندگی انتہائی مشکل اور تلخ بنانے جا رہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ