جب ٹی وی صرف محلہ کے چند گھروں میں میسر تھا اور تمام بچے ٹی وی والے گھر میں شام کو آٹھ بجے ڈرامہ دیکھنے کیلئے جمع ہوتے تھے. سینما دیکھنے کو بہت سے قدامت پسند لوگ معیوب سمجھتے تھے.
اس زمانہ میں کندھوں پر Backpack کیطرح لاد کر گلی گلی ڈگڈگی بجا کر یا ہوکا( آواز) دیکر لوگ خصوصا بچے اکٹھے ہوتے. چار آنے( تقریبا پچیس پیسے) دیکر سلائیڈ شو دیکھنے کو ملتا، کبھی کبھار پیسے کے بدلے آٹا یا گندم وغیرہ بھی یہ لوگ لے لیتے تھے.
یہ ایک ٹین کا بنا ہوا ہاتھ سے چلنے والا پروجیکٹر ٹائپ ہوتا تھا جسمیں ساؤنڈ سسٹم نہیں تھا. ساؤنڈ کی کمی اس مشین کا آپریٹر لائیو کمنٹری دیکر پوری کرتا تھا، سائیڈ میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا تھا جس پر بھی ایک ایک عدسہ لگا ہوتا تھا. آپریٹر صاحب ایک آنکھ بند کرکے اسی سوراخ سے خود بھی سلائیڈز دیکھتے تاکہ سلائیڈز اور آواز میں یکسانیت قائم رہ سکے. ایک وقت میں تین چار بچے /لوگ یہ سلائیڈ شو دیکھ سکتے تھے.ایک گول گلاس نما ٹین پر بڑا عدسہ لگا ہوتا جسکی وجہ سے سلائیڈ کی تصاویر کافی بڑی نظر آتی تھی.
بابا جی اس پروجیکٹر کو ایک فولڈنگ سٹول پر رکھ دیتے اور لوہے کے ایک راڈ کو گھمانے کیساتھ ساتھ کمنٹری بھی کرتے جاتے. شو ختم ہونے کا اعلان اسی راڈ کو پروجیکٹر کے ٹین پر بجا کر کیا جاتا.
سلائیڈ شو مکہ مدینہ کے مقدس مقامات کی تصویروں سے شروع ہوتا، مافوق الفطرت جانوروں، فلمی ستاروں، جرم و سزا پر مبنی تصویروں سے گھومتا ہوا ختم ہوتا.
کیا آپنے بھی اپنے بچپن میں کبھی یہ شو دیکھا؟؟ اگر دیکھا تو اپنے تآثرات شئیر کریں کہ سلائیڈ شو میں کیا دیکھا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر