دو سال پہلے میرے انتہائی پیارے دوست اور اسلام آباد میں مادری زبانوں کا ادبی میلہ سجانے والے نیاز ندیم نے فون کیا کہ اس مرتبہ ہم آپ کی شاعری کی کتاب کا مھورت اپنے میلے میں کرانا چاہتے ہیں میرا پہلا سوال تھا کیا آپ تھر میں کوئلہ نکالنے والی کمپنی اینگرو یا تھر فاؤنڈیشن سے پیسے لے رہے ہیں۔ اس نے بولا نہیں، میں نے ہاں کردی میں اسلام آباد آپ کے میلے میں آؤں گا۔ میرے علم کے مطابق پاکستان میں سب سے پہلے جو ادبی میلہ مشہور ہوا وہ “کے ایل ایف” مشہور ہوا۔
اس سے پہلے جے پور لٹریچر فیسٹیول کا بول بالا ہم نے سنا تھا۔ دیکھا دیکھی میں اور مناسب حصہ نا ملنے پر یا ادیبوں شاعروں کے اعداد و شمار کے حساب سے “کے ایل ایف” میں سندھی کے ادیبوں اور شاعروں کو مناسب حصہ نا ملنے کے نعرے کی بنیاد پر “ایچ ایل ایف” یعنی حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ہوا اور ان کا پہلا میلہ کامیاب رہا۔ آگے چل کے میلہ دھندہ بنا اور دھندہ کرنے والا تو کہیں سے بھی پیسہ ہی لینے کا سوچتا ہے۔ اور “ایچ ایل ایف” نے تھر سے کوئلہ نکالنے والی کمپنی اینگرو کی ذیلی تنظیم تھر فاؤنڈیشن سے پیسے لئے اور بدلے میں ان کو میلے کے سیشنز دیے جن سیشنز میں اینگرو کے ملازمین نے مقامی لوگوں کی جدوجہد اور موقف کو کاؤنٹر کیا تو سندھ کے ادیبوں نے ان سے پوچھا کہ ایک ادبی میلے میں تھر کے باشندوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ڈیل کرنے والی کمپنی سے پیسہ لے کے سیشنز دینے کی کیا ضرورت تھی۔
اس عمل پہ میلے کے منتظمین پر عوامی اور ادبی حلقوں میں بہت زیادہ تنقید ہوئی اور میلے میں اینگرو کو بیچے گئے سیشنز میں احتجاج ہوا لوگوں نے میلے کا بائیکاٹ کیا اور وہ میلہ تکراری ہوا اور ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد ہوا یے کہ اینگرو کی ذیلی تنظیم تھر فاؤنڈیشن ادبی میلہ لگانے والوں کے پیچھے پیسہ لئے پھر رہی تھی کوئی اس تنظیم سے پیسے نہیں لیتا تھا۔ اس لئے کہ اس تنظیم کی مدر ونگ یعنی اینگرو کمپنی پہ مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے کا الزام تھا اور اب بھی ہے۔
تھر میں کوئلہ نکلنے کے بعد وہاں سے کوئلہ نکالنے والی کمپنیاں مقامی لوگوں سے ان کی زمینیں اور قدرتی وسائل چھین رہی ہیں جس پہ سندھ کے ادیب مقامی لوگوں کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ادبی میلوں کو پیسہ دینے کا مطلب سندھی ادیبوں اور شاعروں کے عوام دوست موقف کو خرید کرنا تھا۔ جب شدید ردعمل کے سبب یے ممکن نہ ہوسکا تو ایسے حالات میں گذشتہ سال کراچی لٹریچر فیسٹیول سے علیحدہ ہوکر جشن ادب کے نام پہ گورنر ہاؤس کراچی میں ایلیٹ کلاس کے ادیبوں کا جو میلہ لگا اس میلے کو پیسہ دینے میں تھر فاؤنڈیشن کامیاب ہو گئی۔
اور میلہ لگانے والوں نے تھر فاؤنڈیشن سے پیسے لیتے ہوئے جیسا کہ یہ اعلان کردیا کہ لوگ جانیں لوگوں کا نصیب جانے ہمیں تو بس پیسے چاہیئیں۔ عوامی موقف کے خلاف حاصل کیے ہوئے پیسوں کو لوگ بھتہ سمجھتے ہیں۔ ادبی میلے کے منتظمین سے سوال صرف یے ہے کہ جو پیسہ تھر کے قحط زدہ علاقے کے بچوں کی تعلیمی اسکالرشپ پہ خرچ ہونا چاہیے تھا۔ جو پیسہ تھر میں کڑوا پانی پینے والے لوگوں کو میٹھا پانی میسر کرنے کے لئے خرچ ہونا چاہیے تھا۔ جو پیسہ بے موت مرتے بچوں اور ان کی ماؤں کی زندگی بچانے کے لئے خرچ ہونا چاہیے تھا وہ پیسہ ایلیٹ کلاس کے ادیبوں کے میلے پہ کیوں خرچ ہوا؟ وہ پیسہ تھر کے غریب لوگوں کی زندگی کو اجیرن کرنے والی کمپنی سے کیوں لیا گیا؟ جب کہ ادبی میلوں سے یے امید کی جاتی ہے کہ وہاں پہ عوام اور خصوصن انڈی جینیس لوگوں کے حقوق کے لئے بولا جائے گا اور ان کا موقف پیش کیے جانے کے لئے سیشنز رکھے جائیں گے۔ اسی میلے کے منتظمین نے ایک سرمائیدار کمپنی سے وہ پیسے لے کر لوگوں کا استحصال کیا جو پیسے مقامی لوگوں پہ خرچ ہونے چاہیے تھے اور مقامی لوگوں کی ملکیت تھے وہ ہی پیسے ان کو اکیلا کرنے پر خرچ ہو گئے تھر کے غریب لوگ سمجہتے ہیں کہ ان کی آواز کو دبانے اور ان کو اکیلا کرنے کے لئے سرمایہ دار کمپنیاں ادبی میلوں کی معرفت ان کے ہی پیسوں سے ادیب خرید رہی ہیں۔
مجھے حیرت تب ہوئی جب اینگرو کے سخت مخالف سندھی ادیب اینگرو کے پیسوں سے لگے میلے کے مھمان اسپیکر ہوئے۔ ہماری ادیبوں سے یے گزارش ہے کہ ادبی میلوں کے مہمان بنتے وقت ضرور پوچھ لیا کریں کہ اس میلے کی سج دھج میں غریبوں کے خون پسینے سے تو چراغاں نہیں کیا گیا۔ اور ادبی میلوں کے منتظمین سے گزارش ہے کہ آپ مظلوم لوگوں کی آواز بنیں، سرمایہ دار کمپنیوں کی ڈھال نہ بنیں۔ اس مرتبہ اپنے میلوں کی اسٹیج سے اپنی دھرتی سے دھتکارے جانے والے لوگوں کی آواز بنیں۔ ویسے بھی اس مرتبہ فیض میلے کے رنگوں نے پاکستان میں ادبی میلہ لگانے والوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر