جمعرات کے روز براڈکاسٹنگ ہاوس ڈیرہ اسماعیل خان میں سینئر براڈکاسٹ انجینئر چوہدری علی جان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں شرکت کی دعوت ملی۔
اگرچہ شدید سردی اور دھند نے کئی روز سے گھر میں نظربند کر رکھا تھا مگر علی جان اتنا پیارا اور ہر دلعزیز دوست ہے کہ اس تقریب کو چھوڑنا مشکل تھا۔ اپنی صندوق کے سارے گرم کپڑے باہر نکالے اور بیگم سے کہا اگر ہو سکتا ہے تو دو جرسیاں دو کوٹ دو جوڑے جرابیں ایک ساتھ پہنا دو سر پر بھی دو ٹوپیاں اور مفلر کس کے باندھ دو دیکھتے ہیں پھر سردی ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہے۔
بیگم پہلے تو میری باتیں سن کر ہستی رہی اور کہنے لگی تقریب میں شرکت کرنی ہے یا کسی مزاحیہ ڈرامہ کا کردار ادا کرنا ہے پھر مناسب کپڑے ہیٹر پر گرم کر کے پہنا دیے۔
ادھر ثنا اللہ شمیم گنڈہ پور ایڈوکیٹ صاحب کا فون آیا انہیں بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت تھی۔ چنانچہ سنگت مل گئی ویسے بھی شمیم صاحب کے ساتھ سفر کرنے میں بوریت بالکل نہیں ہوتی ۔
ایک تو علم و ادب کے شہسوار ہیں دوسرا گفتگو میں شھد کا مٹھاس اور ہر بندے کی عزت و احترام کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔مزاح پر آ جائیں تو حقیقی زندگی کے ایسے لطیفے سنائیں گے کہ ہنس ہنس کے برا حال ہو جاتا ہے۔
ایک دفعہ کہنے لگے میں اپنے بوڑھے رشتہ دار سے ملا اور حال احوال کے بعد پوچھا بزرگو اب آپ کی عمر کتنی ہو گئی ہے؟ بزرگ نے کہا بیٹا ہماری عمر مت پوچھو اب میں اللہ کے حساب کتاب سے باہر نکل چکا ہوں۔
شمیم نے کہا وہ کیسے ؟ بزرگ کہنے لگا میں نے سنا ہے جب بندہ ستر سال کا ہو جاۓ تو اس سے اللہ حساب کتاب نہیں لے گا اور جنت دے دے گا میں بھی ستر کراس کر چکا ہوں۔ اب ایسی پریکٹیکل وزڈم کی باتیں شمیم صاحب ہمیں سنا سنا کر ہنسی کے دورے ڈال دیتے ہیں۔
ریڈیو سٹیشن پہنچے تو بہت سے دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ الطاف شاہ صاحب اسلام آباد سے تشریف لاۓ تھے۔
عطاالاکبر ۔محمد علی اظہر۔سٹیشن ڈائرکٹر نجم الحسن کے کمرے میں موجود تھے۔نجم الحسن اور الطاف شاہ صاحب Phd کے آخری مراحل طے کر رہے ہیں اور عنقریب ڈاکٹر بن جائیں گے۔
الطاف شاہ صاحب کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور جلد انکی ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آنے والی ہے۔عطالاکبر بھی ایک کتاب کے مصنف ہیں اور اس علاقے کی تاریخ و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں فیاض بلوچ صاحب بھی پہنچ گیے جو اپنے زرعی فارم سے کم ہی باہر نکلتے ہیں۔ گاڑی میں اپنے فارم کے میٹھے مالٹے بھی دوستوں کے لیے ساتھ لاۓ۔
فیاض بلوچ کو دریائے سندھ کے کنارے آباد فارم کا قدرتی ماحول اتنا پسند آیا کہ باہر سے کٹ کے رہ گیے اب میں نے سوچا ہے ذرہ موسم سدھرے تو کم ازکم ہفتے میں ایک دن اس کے فارم کا چکر لگاٶں گا ایک تو قدرتی ماحول ملے گا دوسرا ریڈیو پاکستان کے سنہرے دور کی زندگی کی اتنی کہانیاں اس شخص کے ذہن میں پوشیدہ ہیں جن کو باہر نکالنا اور چھاپنا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر شاہ جہان بلوچ بھی ہم سے چُھپا چھُپا پھرتا ہے اس کو بھی گھر سے نکالنا پڑے گا۔بعد میں چودھری علی جان صاحب کی تقریب شروع ہوئی جس میں ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا اور سٹاف اور دوستوں کی طرف سے تحائف بھی پیش کیے گیے۔ تقریب کے اختتام پر ایک شاندار لنچ کا اہتمام کیا گیا جس کو سب نے انجواۓ کیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر