نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رولا پے گیا ۔۔۔ گلزار احمد

اس سے پہلے صبح سویرے شکور بھٹی نے میرا کالم پڑھ کر ۔۔رن مرید۔۔لکھ کر مجھے sms کر دیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ میری شھرت ہے کہ رسوائی ہے۔

میں نے گزشتہ روز ۔رن مرید ۔ کے عنوان سے کالم لکھا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ میرے دوست جو مجھے رن مرید سمجھتے تھے ان کو سمجھانا تھا کہ میں تو ایک ببر شیر ہوں اور وہ میرے متعلق ایسا نہ سوچیں مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کالم پر اتنی دھول اڑائی گئی کہ تمام دوستوں نے مجھے مستند قسم کا رن مرید بنا دیا۔

اب میں سر پکڑ کے بیٹھا ہوں کہ تعویز الٹے پڑ گئے اور جن دوستوں کو رن مریدی کے ٹائیٹل سے بچانے کی کوشش کی تھی وہ سینہ تان کر رن مرید بننے پر تیار ہو گئے اور الٹا مجھے بھی اپنی یونین میں شامل کر لیا۔

سب سے پہلے آپ کو سرائیکی گیت کے چند اشعار سنا دیتا ہوں جو افشاں زیبی نے گایا ہے اور آپ یو ٹیوب پر خود سن سکتے ہیں۔اشعار اس طرح ہیں ۔۔۔؎

اساں جدوں کسی تے نیں کیتا اعتراض ہے ۔۔

بندہ بندہ ساتھے کیوں زخمی ناراض اے ۔۔

لوکی گل وچ لاکٹ پاون۔اتے یار دا ناں لکھوانڑ

اساں یار دا ناں لکھوایا تے رولا پے گیا۔

لوکاں دو دو یار بنڑاے کسے اف نہ کیتی ہاے

اساں ہکو یار بنڑایا تاں رولا پے گیا

ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ جب ہم نے کسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا پھر ہر بندہ مجھ پر کیوں ناراض ہے۔ لوگ اپنے یار کا نام لاکٹ پر لکھوا کر گلے ڈال کے پھرتے ہیں جب ہم نے لاکٹ پر یار کا نام لکھوایا تو رولا ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے دو دو یار بناے نہ کسی نے اف کی نہ ہاے کی مگر ہم نے صرف ایک یار بنایا تو رولا پڑ گیا۔

اب آپ کل کے کالم کے تبصرے سنیے۔سب سے پہلے سڈنی آسٹریلیا سے ڈیرہ کے ممتاز مصنف اور ادیب محترم جناب عباس سیال صاحب نے لکھا کہ بڑے بڑے رن مریدوں کے نام شامل کرنا بھول گیے ہو جن میں پیر و مرشد حفیظ گیلانی۔ وہ خود یعنی عباس سیال صاحب اور احسان بلوچ شامل ہیں۔

میں ابھی ان سے معذرت کر رہا تھا کہ جناب آپ جیسے اعلی درجے کے رن مرید لوگوں کے نام تو یاد تھے مگر مار کھانے کے ڈر سے چپ رہا کہ وجاہت عمرانی صاحب نے ترنت جواب دیا۔وجاہت نے عباس کو کہا۔۔ عباس بھرا گلزار صیب اتھاں صرف رن مریداں دا زکر کیتا ہے, رن مریداں دے چیئر میناں دا نہیں. تساں ایں معاملے وچ چیئر مین ہیوے, تساں تاں موبائل کوں وی پچھ کے ہتھ لیندے وے…. ماں ماں ہوندی ہے زال سکی ماں ہوندی ہے, ہک رن مرید دا بیان۔۔

اس کے بعد ثنا خان نے عباس سیال کا جواب دیا کہ۔۔ واقعی ہمارے لالا عباس کا نام رن مریدوں میں نہ لکھا جاۓ تو وہ برا مان جاتے ہیں اگلی دفعہ لالا عباس کا اسپیشل ذکر کیا جاۓ رن مرید کے کالم میں۔

ثنا نے کہا سر اب آپکو پتا چلا ہو گا ڈیرہ والوں کیلیے رن مرید کا خطاب خطاب نہیں میڈل ہے میڈل ۔۔۔ وجاہت عمرانی نے تو تبصرہ کر کے میرے کالم کے پرخچے اڑا دیے میرا سارا تھیسس سمندر میں بہا دیا۔وجاہت نے لکھا ۔۔بہت ہی زبردست ، ظریفانہ انداز میں عام فہم اور تحقیقی تحریر۔ بہرحال میرا زکر خیر کر کے آپ نے اعزاز بخشا تو میرا بھی حق ہے کہ میں بھی آپ کے قارئین کو کچھ ٹوٹکے پیش کروں۔

کامیاب ازدواجی زندگی کے دو ہی فلسفے ہیں کہ بیوی کے سامنے کبھی نہ بولو اور دوسرا ہمیشہ بیوی کی ہی سنو۔

شادی سے پہلے ہر مرد ’’ من مرید ‘‘ ہوتا ہے اور بعد میں “رن مرید“ میرا ذاتی  تجربہ ہے کہ اکثر رن مرید بڑی عمر کے پڑھے لکھے مرد ہی ہوتے ہیں جو اکثر و بیشترانڈر سٹینڈنگ کرتے کرتے بیوی کے انڈر ہی آجاتے ہیں۔

ان پڑھ اور کم پڑھا لکھا طبقہ یہ سوچ کر بیوی سے انڈر سٹینڈنگ نہیں کرتا کہ پیدا تو بچے ہی کرنے ہیں تو پھر انڈرسٹینڈنگ چہ معنی۔

آپ نے نورجہاں کا تاریخی حوالہ دیا تو میں بھی ایک تاریخی حوالہ دوں گا کہ مستانی ، باجی راؤ کی دوسری بیوی تھی جسے وہ بے تحاشا چاہتا تھا۔۔پدماوتی ، راول رتن سنگھ کی دوسری بیوی تھی،جس پہ وہ دل و جان سے نثار تھا۔۔جودھا، اکبر کی تیسری بیوی تھی،جس سے اس کی محبت کے چرچے زبان زدعام تھے۔

ممتاز، شاہ جہاں کی آٹھویں بیوی تھی جس کی محبت میں اس نے تاج محل بنوایا۔تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی شوہر نے اپنی پہلی بیوی سے دیوانہ وار محبت نہیں کی۔یہ صرف جنرل نالج کے لیے ہے۔

گھر میں اس کا تذکرہ کرنے سے گریز کریں۔ورنہ کسی بھی قسم کے ’’سانحہ یا حادثہ‘‘ کا میں قطعی ذمہ دار نہیں ہوں گا کہ آپ کو رات کا کھانا بمعہ سوئیٹ ڈش ملے نہ ملے۔

ثنا خان نے وجاہت کے کمنٹس پر کہا ۔۔۔ہاہاہا سر زبردست بات کی جناب نے واقعی آجکل من مرید مردوں کی کمی ہے رن مرید ہر جگہ پاۓ جاتے ہیں ۔ ویسے جو موجودہ حکمرانوں کی ذہانت کی مثال دی اس پر ہمارے روشن خیال دوست خفا نہ ہو جاٸیں جبکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسواٸ کی۔۔

سر یہاں گروپ میں کچھ میاں بیوی کے جوڑے بھی ایڈ ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خواتین اپنے شوہروں کو وجاہت علی عمرانی کی نصیحت سے دور رہینے کی تلقین کریں ۔باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے میرے شوہر ایڈ نہیں اسلیے مجھے آپکی یعنی وجاہت عمرانی کی تحریر پسند آٸی ۔

وجاہت نے چند اشعار سنا کر ایک اور حملہ کر دیا۔وجاہت نے کہا ۔۔؎۔

زن مریدی کا شرف پا کے بھی رنجور ہوں میں

قصہءِ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں

90 فیصد شادی شدہ رن مرید ہوتے ہیں اور باقی 10 فیصد جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔ یعنی 100% میرے گلزار احمد سمیت رن مرید ہوتے ہیں۔

تنویر شاہ صاحب بھی وجاہت کے حمائیتی نکلے انہوں نے کہا ۔۔ جہاں تک بات رن مرید کی ہے تو اس میں کوی قباحت نہی کہ ہم سب پیر بھائی ہیں.

رہی بات وجاہت عمرانی کی تو ممکن ہیں وہ ہمارے استاد محترم ہوں اس فیلڈ میں. مرد جتنا دلیر ہو مگر ڈرتا صرف صنف نازک سے . اب ایسا کیوں ہوتا ہے اس پہ سنجیدہ بحث عباس سیال صاحب اور عمار یاسر سے کی جا سکتی ہے ۔

وجاہت نے تنویر شاہ سے کہا ۔۔ شاہ جی ہکی بیڑی دے سوار ہیں, عباس بھرا دی سنجیدہ بحث تاں پچا ویسوں, کاظمی بھرا تاں فلسفے فلسفے تے معرفت وچ کَھل لہا گھندے, اے وی امید ہے کہ مرشد ہتھ ہولا رکھیسی۔۔ سید عمار اس کمنٹس کے ساتھ میدان میں اترے۔۔ دنیا چاہے سادات کی مرید ہو مگر جملہ سادات زن مریدی ہی کو عافیت سمجھتے ہیں۔ وت سید بخاری ہووے تا سونے تے سوہاگہ۔

سید ارشاد حسین شاہ نے یہ پیغام بھیج کر بات ہی ختم کر دی۔ سر! آپ کی مہربانیوں کا کس طرح شکریہ ادا کروں ، آپ نے اپنے حلقہ مریدان زن میں مجھے نمائندگی دے کر میری چالیس سالہ گھریلو خدمات کا حق تسلیم تو کرایا ۔ اس میدان میں بڑے بڑوں کی عمر بھر کی کمائی خاک میں مل جاتی ،یہ اعزاز کم خوش نصیبوں کو مل پاتا ھے ۔

میں سنجیدگی سے سوچ رہاھوں کی کیوں نا ھم انجمن غلامان بیگمات بنا کر آپ کوھی دائمی صدارت تفویض کر دیں اگر ثناءاللہ شمیم صاحب کو اعتراض نہ ھوتو۔

یہ بھی پڑھیے: رن مرید۔۔۔ گلزار احمد

اس سے پہلے صبح سویرے شکور بھٹی نے میرا کالم پڑھ کر ۔۔رن مرید۔۔لکھ کر مجھے sms کر دیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ میری شھرت ہے کہ رسوائی ہے۔

About The Author