پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ایک داستان سے عبارت ہے۔ مہر خدا بخش ہماری پارٹی کے دیرینہ بزرگ رفیق تھے۔ آج مؤرخہ 25 دسمبر 2019 ء کو ان کا انتقال ہو گیا ہے اور دو بجے جنازہ گہا پیر عمر والی میں ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مہر خدا بخش ٹمبر مرچنٹ تھے۔ اور کا روباری برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود شہید ذولفقار علی بھٹو کے عشق میں سر شار رہتے تھے۔ میں نے انہیں اپنے بچپن سے ہی پیپلز پارٹی سے وابستہ دیکھا اور پارٹی کا پرچم سر بلند کرنے کی خواہش مرتے دم تک ان کی زبان پر تھی۔ آج جنازہ میں ان کے بڑے صاحبزادے مہر غلام عباس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ میرا ابا آپکی پارٹی سے وفا نبھانے میں سرخرو ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں جب بھی پارٹی کی کوئی میٹنگ کرتا مہر صاحب تمام مہمانوں کی آمد سے پہلے اگلی لائن والی کسی کرسی پر براجمان ہوتے تھے اور ان کے ہاتھ میں لکڑی سے بنا ہوا آٹھ نو فٹ کا ایک تیر ہوتا جس پر پارٹی پرچم پینٹ کیا ہوتا تھا اور جب بھی نعرے بازی کا سلسلہ شروع ہوتا مہر صاحب دلکی چال چلتے ہوئے سٹیج کے سامنے آ جاتے اور ڈھول کے ردم اور نعرہ بھٹو پر والہانہ رقص کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی ان کی خوشی ہوتی اور یہی ان کی طلب۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ضیاء الحق کی عدالتوں نے شہید ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو پیپلز پارٹی کے علاوہ ہر درد دل رکھنے والا ایک کرب میں مبتلا تھا۔ بھٹو کی محبت میں نوجوان خود کشیاں کر رہے تھے۔ ایسے میں مہر خدا بخش کہاں پیچھے ہٹنے والے تھے انہوں نے آمر وقت ضیاء ملعون کو ایک ٹیلی گرام بھیج دیا کہ بھٹو کو چھوڑ دو مجھے پھانسی لگا دو۔ اس پر انتظامیہ میں تھرتھرلی پیدا ہو گئی۔ مہر صاحب کی سرگرمیاں کئی ایجنسیوں کی نظر میں تھی۔ مگر مہر خدا بخش کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہ آئی۔ کچھ عرصہ بعد انہیں ایوان صدر سے ایک مراسلہ ۤآیا کہ بھٹو صاحب کا معاملہ عدالتوں میں ہے تاہم اگر آپ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ کو طلب کیا جا سکتا۔
یہ تھا مہر خدا بخش کا اعزاز جسے وہ عمر بھر ایک فائل میں اپنے ساتھ لیکر گھوما کرتے تھے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
زیر نظر تصویر 18 دسمبر 1987ء کی ہے جس میں وہ میرے آگے کھڑے ہیں اور ہمارے ہمراہ اس وقت پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل شیخ رفیق احمد موجود ہیں جبکہ دوسری طرف وہ میرے ہمراہ ایک گروپ میں موجود ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کے موقع پر تصویری شکل میں محفوظ کیا گیا۔
مرحوم معروف فوک سنگر سجاد ملک کے بڑے ماموں تھے۔ اللہ تبارک ان کا سفرِ آخرت آسان فرمائے۔ آمین
کیسے کیسے گوہر نایاب پیپلز پارٹی کی محبت میں مٹی میں جا ملے۔ ان کے جنازہ میں تو پارٹی کی طرف سے کوئی شریک نہ ہو سکا تاہم امید ہے قل خوانی پر پارٹی کے کچھ احباب شرکت فرمائیں۔ قل خوانی 27 دسمبر صبح نو بجے جامع مسجد بیت المکرم محلہ قصاب پورہ بیرون خونی برج میں ادا کی جائے گی۔
تصویر میں سرخ نقطہ مہر خدا بخش کی نشاندہی کر رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر