پچھلے دو تین دن سے ڈیرہ میں دھند چھائی ہوئی ہے اور سخت سردی ہے۔یونائٹڈ بک سنٹر گیا تو لطیف صاحب گرم چادر اوڑھے سر پر ٹوپی مفلر لپیٹے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے کھانسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔
ایک دن پہلے ڈاکٹر کو ملے تو ڈاکٹر نے تین چار ھزار کے ٹسٹ اور سات ھزار کی دوائیاں لکھ دیں۔ اس کا احوال سن کر دل ڈر گیا یار کھانسی تو ہم سب کو لگی ہوئی ہے مگر اتنی مہنگی دوائیاں اللہ کی پناہ ۔ دوسری صبح اٹھے تو دھند مزید گہری ہو گئی اور باہر قدم نہیں رکھ سکتا تھا ۔
خیر جمعة المبارک کا دن تھا اور نماز جمعہ کے لیے ذرہ فاصلے پر مسجد جانا تھا۔ چنانچہ سارے گرم کپڑے ایک دوسرے کے اوپر پہن کر جمعہ نماز پڑھ لی۔ گھر آ کر بیگم کو کہا کہ کوئی دیسی مرغی کی گرم یخنی مل جاۓ تو کچھ ہوش ٹھکانے آئیں۔ بیگم نے بتایا وہ زمانے گیے جب گاٶں میں لوگ دیسی مرغیاں پالتے تھے اب برائلر چھایا ہوا ہے کہو تو برائلر کی یخنی بنا دوں۔
میں نے کہا رہنے دو ہم برائلر کھا کے پہلے ہی برائلر بن چکے ہیں جس طرح برائلر پنجرے میں بند کھڑا رہتا ہے ہم بھی تو گھر سارا دن کمپوٹر پر جمے بیٹھے رہتے ہیں ایک قدم چل بھی نہیں سکتے۔
خیر چاۓ پر گزارا کر لیتے ہیں ۔ شام ہوئی تو اچانک خیال آیا چودھوان کے دوست سعداللہ خان بابڑ سے کئی روز سے بات نہیں ہوئی چلو سیانا بندہ ہے کھانسی کا ٹوٹکا بھی بتا دے گا ۔
سعداللہ خان بابڑکو فون کیا تو جواب آیا کہ سر جی رضائی میں گھسا ہوا ہوں اور سردی کی وجہ سے بچوں سے گڑ منگوایا ہے تاکہ گڑ کھا کے سردی کا مقابلہ کر سکوں۔
بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی اس سے پہلے ارشاد حسین شاہ کو فون کیا تو وہ رضائی میں گھسے تھے میں خود سارا دن رضائی میں لپٹا رہا اب سعداللہ خان بابڑ بھی رضائی اوڑھے سو رہے ہیں۔
پہلے تو ایک شعر یاد آیا ؎ ایسی سردی ہے کہ سورج بھی دہائی مانگے ۔۔جو ہو پردیس میں وہ کس سے رضائی مانگے۔ خیر میں نے سعداللہ خان کو بتایا یار مجھے دس دن سے کھانسی نے ستا رکھا ہے ڈاکٹروں کی ایٹی بایٹک دوائی آگمنٹین بھی کھا لی کچھ شربت کاڑھے بھی پی لیے مگر کھانسی جانے کا نام نہیں لیتی اب یار کوئی دیہاتی علاج بتاو شھری علاج تو فیل ہو گیے۔
سعداللہ خان نے کہا پہلی بات تو یہ ہے تمھارے شھر میں چنگچی رکشہ کی آلودگی اور ٹریفک کے شور نے تباہی مچا رکھی ہے خالص آکسیجن تو ملتی نہیں اس لیے سانس کی بیماریاں زیادہ ہیں۔
میں نے کہا آلودگی اور خالص آکسیجن کا تو آپ لوگوں کو پتہ چلتا ہے جو دیہات سے آتے ہیں ہمارے اردگرد ہر طرف پٹرول ڈیزل کا دھواں ہے ہم تو اس کو خالص آکسیجن کہتے ہیں۔پھر کہنے لگا تمھارے اردگرد کھیت اور درخت تھے وہ کاٹ کے کالونیاں بنا لیں تو آکسیجن کہاں سے آے گی۔
پرندے بھی ہجرت کر گیے جن کے نغمے سن کر تازہ دم ہوتے تھے اب دھواں اور دھول اب تمھارا مقدر ہے کھانسی زکام نہیں لگے گا تو کیا ہوگا؟ میں نے کہا بات تو تمھاری سچ ہے مگر اب کوئی کھانسی کا علاج بتاو۔
سعداللہ خان نے کہا ۔ایک چمچ شھد میں چار پانچ دانے کالی مرچ پیس کے ڈالو اور اس شھد کو کھا کے رضائی میں گھس جاو۔ان شاء اللہ آفاقہ ہو گا۔
میں نے بیوی کو کہا جلدی سے یہ فارمولا تیار کرو اور فورا” شھد کھا کے رضائی میں گھس گیا۔رات کو ناک بند نہیں ہوا اور نیند بھی خوب آئی۔صبح ٹھیک فجر کی نماز سے پہلے بیدار ہوا اور نماز ادا کر کے خدا کا شکر ادا کیا۔
کچھ طبیعت بحال ہوئی تو آج کالم لکھنے کی جرات ہوئی ورنہ تو دو دن سے کالم لکھنے کو جی نہیں کرتا تھا۔
ہمارے ماڈرن ڈاکٹروں کا علاج ایٹی بائٹک سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے ۔ایک تو بیماری جڑ سے ختم نہیں ہوتی صرف دفعہ وقتی ہو جاتی ہے دوسرا بہت مہنگی دوائیاں خریدنی پڑتی ہیں۔
مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا تھا گرمیوں میں بخار تیز ہوا تو دریاے سندھ کی ڈھنڈ میں دو تین ٹُبیاں مار کے بخار اتر جاتا تھا پیناڈول اور اسپرین کا نام بھی نہیں آتا تھا۔
اب ڈاکٹر بھی تیز بخار میں سر پر ٹھنڈی پُسیاں رکھتے ہیں۔ پرانے زمانے کی دانش اور علاج اب دیہاتوں میں مل جاتے ہیں شھری تو ڈاکٹروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔لیکن سب ڈاکٹر ایک جیسے نہیں بہت سے ڈاکٹر نہایت ایمانداری۔خلوص۔لالچ کے بغیر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں جن کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر