برطانیہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔حافظہ، ماضی ہے،زبان جسے امر کرتی ہے۔انگریزی زبان کے حسن کی ایک دنیا اسیر ہے۔نئی دنیا کی کئی اقدار ،کلچر، موسیقی اور فلم ، کتاب اور علمیت کا بڑا عصری episteme انگریزی زبان پہ استوار ہے۔شیکسپیئر برطانوی ہوتے ہوئے بھی ایک عالمی شہری ہے۔ اس کے اقوال_ زریں اجتماعی انسانی حافظے کا حصہ ہیں۔ جیسے، ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی اور” Brevity is the soul of wit” شیکسپیئر کے نہیں مقامی اقوال ہوں۔اور Keats تو جیسے حسن و خوبی کا استعارہ ہو:
Beauty is truth, truth beauty,
That is all ye know on earth,
And all you need to know”
برٹرینڈ رسل جیسا روشن دماغ برطانیہ کا روشن چہرہ ہے جس نے کہا کہ اس دنیا کا عذاب یہ ہے کہ بیوقوفوں کو اپنی بات کا پکا یقین ہوتا ہے اور ذہین لوگ ہزار وہم و گمان میں گھرے رہتے ہیں۔پارلیمانی جمہوریت ، جدید بینکنگ، صنعتی انقلاب اور گلوبلائزیشن اپنی اصل میں برطانوی ہیں۔ جسے ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک برطانیہ وہ ہے جو ہمارے ماضی کا سامراجی کردار ہے۔ وہ ماضی،جسے ہم بھولنا چاہتے ہیں۔ہمیں روشن خیال برطانیہ اچھا لگتا ہے تو سامراجی برطانیہ وہ عذاب ہے جسے بھولنا اور بدلنا ضروری ہے!!
برطانیہ میں بارہ دسمبر 2019 کو انتخابات ہوئے۔650 کے ایوان میں کنزرویٹو پارٹی نے 365،لیبر پارٹی نے 203 ،سکاٹش نیشنل پارٹی نے 48، اور لبرل ڈیموکریٹس نے 11 نشستیں حاصل کیں۔ یہ نتائج بریکسٹ کی توثیق، پرچی جمہوریت کی ناکامی، populist لیڈرز کی جادو بیانی، رجعت پسند میڈیا کی طاقت، سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت اور عام لوگوں کے ووٹ دینے کے عقلی شعور اور دانش کی بجائے جبلی اور جذباتی رجحانات پر مہر_ تصدیق ثبت کرتے نظر آتے ہیں!
اکیسویں صدی،پوسٹ ماڈرن، پوسٹ ٹرتھ اور post happiness صدی ہے۔خوشی، کم کم ہے۔اور سچائی گویا ماضی کا قصہ ہے۔ صدر ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے رہنماؤں کے نزدیک سچ بولنا کبھی پہلی ترجیح نہیں رہی۔ہمارے نزدیک انٹر نیٹ، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور ایک interconnected دنیا کو جس طرح کی
قیادت کی ضرورت ہے وہ عنقا ہے اور اس کی چند مثالیں کینیڈا، نیوزی لینڈ، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، فن لینڈ اور سیکنڈے نیوین ممالک ہیں نہ کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک جو ایک دن بدن مربوط ہوتی دنیا میں reductionist قوم پرستی کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پرچی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور دنیا متناسب نمائندگی کی طرف بڑھتے ہوئے اجتماعی شعور اور تہذیبی دانش کے حامل لیڈروں کو تلاشتی ہے۔ بریکسٹ اب نوشتہء دیوار ہے۔یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی منڈی اور سب سے بڑی معیشت ہے اور برطانیہ، دنیا کی چھٹی بڑی تو یورپ کی دوسری بڑی معیشت ہے۔برطانیہ آجکل شناخت اور یورپ سے تعلقات کے حوالے سے خلجان کا شکار ہے۔مشرقی یورپ کے مہاجرین سے خوفزدہ ہے۔اور برطانیہ کو عجلت میں یورپ کے ساتھ نئے سرے سے کثیرالجہتی تعلقات کا تعین کرنا ہے۔جبکہ بریکسٹ کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی سیاسی جدلیات انگلینڈ اور ویلز سے مختلف ہیں اور بریکسٹ برطانیہ کے لئے To be or not be جیسا بڑا وجودی سوال ہے۔ بورس جانسن کو شیکسپئر کے ہیملٹ جیسے مخمصے کا سامنا ہے وہ ” Get Brexit done” کے نعرے پر انتخاب جیتے ہیں لیکن بریکسٹ جس طرح کی statesmanship کا متقاضی ہے۔دعا ہے کہ وہ اس پر پورے اتریں کیونکہ اس سے نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپی یونین کے کروڑوں لوگوں کا مستقبل وابستہ ہے ۔لگتا یہ ہے کہ سکاٹ لینڈ آزادی کے لئے دوسرے ریفرنڈم کا مطالبہ کرے گا۔ اور آئر لینڈ میں بےیقینی کے بادل چھائے رہیں گے ۔فرانس کی یورپی امور کی وزیر، نتلی لازو نے دلچسپ بات کی ہے۔انھوں کہا کہ ان کی بلی کا نام بریکسٹ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی خوفزدہ بلی انھیں ہر صبح میاوں کرکے جگاتی ہے اور باہر جانے کے لئے بے چین ہوتی ہے مگر جب وہ اپنی بلی کے لئے دروازہ کھولتی ہیں تو بلی خوفزدہ ہو کر کمرے کے درمیان میں آ بیٹھتی ہے!! برطانوی بریکسٹ کی خوفزدہ بلی ہزار وہم و گماں سنبھالے اب یورپی یونین سے باہر نکلنے والی ہے اور نئے مسائل کھڑے ہونے کا امکان ہے۔خلفشار، منڈی کی سیاست کو راس نہیں۔”گومگو” انسانوں اور قوموں کی قوت_عمل کو مجروح کرتی ہے۔بورس جانسن برطانوی سیاست کے اسرارورموز کے شناور ہیں انھوں نے لیبر پارٹی کے عمررسیدہ اور ترقی پسند جیریمی کاربن کو چاروں شانے چت گرایا ہے اور لیبر پارٹی کے گڑھ سے ٹوریوں کو فتح دلوائی ہے۔کاربن کی شکست اس skepticism کا نتیجہ ہے جو ذہین لوگوں کا خاصہ ہے۔ بورس جانسن نے بریکسٹ کے بارے میں یکسوئی سے انتخابی مہم چلائی جبکہ جیریمی کاربن remain ووٹرز کو اس prescience اور قطعیت کے ساتھ گائید نہ کرسکے جس کا مظاہرہ بورس جانسن نے بریکسٹ ووٹرز کے لئے کیا۔ اور نیجل فراج کو غیر موثر کرکے بریکسٹ ووٹ تقسیم ہونے سے بچا لیا۔انگریزی زبان کا ایک حسن pun کہلاتا ہے۔ جانسن نے انتخاب کے بعد خوب صورتی سے کاربن کے نام کا استعمال کرتے ہوئے کہا:
” You voted to be Corbyn-neutral by Christmas”۔
ماحولیاتی معاہدوں کے مطابق برطانیہ کو 2050 تک کاربن نیوٹرل ہونا ہے۔جملے بازی اور زبان کےحسن سے سیاست رنگین ہوتی ہے اور بورس جانسن کے عہد میں ایسا بہت کچھ سننے کو ملے گا۔جبکہ برطانیہ کو متحد رکھنے کا چیلنج کا موجود رہے گا۔صدر نکسن نے اپنی شاندار کتاب”The Leaders” میں لکھا ہے کہ کسی قوم کی عظمت میں اس کے جغرافیے اور حجم کو بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔برطانیہ دنیا کا اہم ملک ہے۔اور برطانیہ کا اتحاد یوروپ اور دنیا کے لئے سود مند ہے لیکن متعصبانہ قوم پرستی سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔قومیں اپنی شناخت اور مفادات کو مد_ نظر رکھتے ہوئے باہمی احترام سے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں کہ اکیسویں صدی تعاون اور ایک دوسرے پر انحصار کی صدی ہے ۔مسابقتی قوم پرستی سے دنیا کو ایٹمی جنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور مصنوعی ذہانت جیسے مسائل سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔نیویارک ٹائمز نے 16 دسمبر 2019 کا اداریہ” Will the United Kingdom Stay United”کے عنوان سے لکھا۔ بڑے ملک اگر استعماری اور سامراجی نہ ہوں تو استحکام کا باعث ہوتے ہیں۔1947 میں برطانیہ بر صغیر کو درجن بھر ممالک میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔جب نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے تاریخی شعور کی بنیاد پر لارڈ ماونٹ بیٹن کو اس بات پر راضی کیا کہ چھوٹے ممالک اس خطے کو مستقل عدم استحکام کا شکار کئے رکھیں گے اور ماضی میں ہندوستان کی طویل غلامی کی ایک وجہ چھوٹی ریاستیں تھیں۔اس پر مستزاد بر_صغیر کے لوگوں کی کج بحثی اور جھگڑالو مزاج ہے۔یہ ایک پیچیدہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم کے بعد بننے والے دو ممالک بھارت اور پاکستان اچھے ہمسایوں میں سے نہ تھے۔بر صغیر میں درجن بھر ممالک یقینی recipe for disaster ہوتے۔اور اب بھی بھارت اور پاکستان کو توڑنے کے خواب دیکھنے والے دونوں ملکوں کے عوام کے دشمن ہے۔اچھی حکومتیں اور عوام دوست ریاستیں نہ کہ تحفظ کی تلاش میں سرگرداں چھوٹے ملک عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت بڑے ملک ہیں اور بر_ صغیر کی قدیم تہذیبی تقسیم کا مظہر ہیں۔ مگر برطانوی MI6 پاکستان میں عدم استحکام کے لئے پاکستان گریز قوتوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔اگر خواہشیں گھوڑے بن جائیں تو احمق ان پر سوار ہوں۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ بورس جانسن کی قیادت میں برطانیہ متحد رہے اور تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل کرے!
نئی دنیا کے بہترین لیڈرز کے لئے تین چیزوں کا ادراک بہت ضروری ہے۔ یہ کہ علم اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں علم کے بہاو کو تیز تر کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے ممالک کو کھولنا ہے بند نہیں کرنا۔تاکہ علمی معیشت کے گرو وہاں آکر کام کرسکیں۔گوگل کے سندر پچائی، مائیکرو سافٹ کے Satya Nadella’ اور Adobe کے شانتانو نارائن سب باہر سے امریکہ آئے کہ امریکہ صدر ٹرمپ کی مسابقتی قوم پرستی کے باوجود ایک اوپن سوسائٹی ہے اور بھارت کی بین الاقوامی پہچان پچائی ہے نہ کہ نریندرا مودی جنھوں نے بلاوجہ متنازعہ شہریت بل پاس کر کے اپنے ملک کا سیکولر امیج برباد کر دیا ہے۔پاکستان اور بھارت جس اخلاقی دوہرے معیار کا شکار ہیں اس کا بنیادی premise یہ ہے کہ سیکولرازم بھارت کے لئے اچھا لیکن پاکستان کے لئے برا ہے اور اسی طرح کے دوسرے مباحث۔کیا برطانیہ کو برصغیرانہ حماقت یا subcontinental stupidity جیسا متعدی مرض لاحق ہو گیا ہے؟کہ یورپی یونین سے نکل رہا ہے اور امریکہ اور پرانی غلام منڈیوں سے تعاون مانگتا ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ تمام بڑے مسائل عالمی ہیں۔ کیا متعصب قوم پرست رہنما ان کا ادراک نہیں رکھتے!! ہم ہزار وہم و گماں سنبھالے اپنے عہد کے نابغہ ظفر اقبال کا شعر پڑھتے ہیں:
یوں ہے کہ یہاں نام ونشاں تک نہیں تیرا
اور تجھ سے بھری رہتی ہے تنہائی ہماری
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر