نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوالالمپور کانفرنس میں ملائیشیااور ترکی کا او آئی سی پر مسلمانوں کے دفاع کیلئے زور

سعودی فرماں روا نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جبکہ پاکستان نے اپنی شرکت کا فیصلہ کو کانفرنس سے کچھ روز قبل ہی واپس لے لیا۔

کوالالمپور کانفرنس میں مسلمان ممالک کے سربراہان کی میزبانی کرتے ہوئے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے مسلمانوں کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کا دفاع کیا ہے، جسے سعودی عرب کی جانب سے مسترد کردیا گیا اور اسے اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے ایک بڑے پلیٹ فارم کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ کانفرنس میں شرکت کے لیے او آئی سی کے تمام 57 رکن ممالک کے سربراہان کو دعوت دی گئی تھی لیکن صرف 20 ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

سعودی فرماں روا نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جبکہ پاکستان نے اپنی شرکت کا فیصلہ کو کانفرنس سے کچھ روز قبل ہی واپس لے لیا۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسلام، مسلمانوں اور ان کی ریاستوں کو درپیش ‘بحران کی حالت، بے بس اور اس عظیم دین سے دوری’ کے حوالے سے درپیش مسائل کو سمجھنا ہے۔

تحریر جاری ہے‎
مزید پڑھیں: ملائیشیا میں آج سے کوالالمپور سمٹ کا آغاز، سعودی عرب کا بائیکاٹ

ہفتے تک جاری رہنے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ‘اسلام کے بارے میں دنیا کے تاثرات، اسلامو فوبیا کے عروج، اسلامی تہذیب کے زوال اور مسلم اقوام کو درکار حکمرانی میں اصلاحات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم کسی کے ساتھ تفریق نہیں کررہے یا کسی کو الگ تھلگ نہیں کررہے’۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں ترک صدر رجب طیب اردوان، ایرانی صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان موجود تھے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے بھی تقریبا اسی لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے آغاز کرنا ہوگا اور اگر یہ خیالات، تجاویز اور حل قابل قبول اور اقدامات اٹھانے کے قابل ہوئے تو ہم انہیں بڑے پلیٹ فارم پر غور کے لیے پیش کریں گے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں یہ موقع میسر آیا ہے کہ ہم اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں، جس میں اسلامو فوبیا، تقسیم، داخلی لڑائیاں، جو ہمارے خطے کو نقصان پہنچا رہی ہیں، فرقہ وارانہ اور نسلی امتیاز شامل ہے۔

گزشتہ روز یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ مسلمانوں کو دنیا بھر میں درپیش مسائل کے حل کے لیے 20 مسلم ممالک کے رہنما اور نمائندے ملائیشیا کے دارالحکومت ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے جمع ہو چکے ہیں جہاں سعودی عرب اور پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔

اسی روز ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی تھی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تحفظات کے سبب پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔

کوالالمپور کانفرنس میں کئی دہائیوں سے جاری مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، شام اور یمن کے تنازع، میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور چین میں کیمپوں میں محصور ایغور مسلمانوں کے حوالے سے گفتگو متوقع ہے۔

سعودی عرب نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پونے 2 ارب مسلمانوں کے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے یہ سمٹ غلط فورم ہے تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ ایران، ترکی اور قطر جیسے علاقائی حریف اسے مسلم دنیا میں تنہا کردیں گے۔

سعودی عرب کے فرماں روا سلمان نے منگل کو مہاتیر محمد سے فون پر گفتگو میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے معاملات پر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بحث ہونی چاہیے۔

سعودی عرب کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث اسلامی دنیا اس وقت دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور سنگاپور کی یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ اور عالمی امور کے ماہر جیمز ڈور نے اس حوالے سے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو دھڑے بن گئے ہیں، ایک گروپ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہے اور دوسرے میں قطر اور ترکی ہیں جبکہ پاکستان ان دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

دنیا میں سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک انڈونیشیا کے سربراہ بھی اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور اس اجلاس میں ان کی نمائندگی نائب صدر معروف امین کریں گے۔

ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ کچھ ناقدین کا یہ ماننا بالکل غلط ہے کہ ہم مسلم دنیا میں کوئی نیا دھڑا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سمٹ مذہب یا مذہبی معاملات پر بحث کے لیے پلیٹ فارم نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔

About The Author