آئے دن ہمیں ایک "طاقتور خاندان ” کی طرف سے یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ہمارا مورال ڈاؤن نہ کیا جائے ۔
دنیا کی تہذیبوں کے پنپنے کی کہانی کو تاریخی تناظر کے ارتقا میں دیکھا جائے تو دنیا نے چھوٹے اداروں سے بڑے اداروں کی طرف ترقی کی ہے خاندان، ذات، برادری ریاستیں سب اسی ارتقا کی مختلف شکلیں ہیں۔مگر بد قسمتی سے ہم نے ارتقا کی بجائے تنزلی کا راستہ چن رکھا ہے۔
آئی ایس پی آر کا حالیہ بیان اس کا غماض ہے۔ اس طاقت ور خاندان کو جب بھی کسی قانون اور آئین کے تابع کرنے کی سعی لا حاصل کی گئی انہوں نے ہمیشہ ریاست ، آئین اور قانون کو روند کر اپنے خاندان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
حضور ریاست کے اندر لاکھوں کروڑوں خاندان رہتے ہیں جو اس ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے بھی یہاں آباد تھے ان کے بھی احساسات ہیں، اچھی زندگی گزارنے کیلئے ان کے بھی حقوق ہیں، وہ بھی پسند اور نا پسند کے بنیادی انسانی طرز عمل کا حصہ ہیں ، ان کو بھی اپنی آزادیاں عزیز ہیں، وہ بھی بغیر کسی خوف و ہراس اور بنا کسی استحصال کے جینا چاہتے ہیں مگر عام خاندانوں کو یہاں بہت کچھ سہنا پڑتا ہے ان کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے جب آپ ان کے لوگوں کو آئین و قانون سے ماورا اپنے عقوبت خانوں میں بند کر دیتے ہیں،
جب ان کے چنندہ لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیتے ہیں، جب آپ کے طاقتور خاندان کی طرف سے بھٹو جیسے عوامی لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے، جب بگٹی جیسے بوڑھے شخص کو آپ کے خاندان نے غاروں کے اندر بھون ڈالا تھا۔
اس وقت بھی ہمارا مورال بہت ڈاؤن ہوا تھا جب آپ کے ادارے نے مشرقی پاکستان میں عام خاندانوں کے ساتھ ریپ کئے تھے، ان کی شلواریں اتروا کر مذہبی شناخت کے نام پر ہتک آمیز رویہ اپنایا تھا۔
حضور گستاخی معاف ہم غریب اور عام لوگ بھی آپ کے خاندان کو ملی ہوئی سہولیات کو ترستے ہیں، ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہماری بھی بڑی بڑی کالونیاں ہوں، کینٹ ہوں، لمبی لمبی گاڑیاں ہوں، طاقت ہو مگر ہم ستر سال سے کسمپرسی کی زندگی جی رہے ہیں۔
آئے نمبر ون کے مالک ہماری گیدڑ بھبھکیوں کو دل پر نہ لینا بلکہ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچ لینا کہ آپ کی بے تحاشا طاقت کی خواہش میں یہاں کے باسیوں نے اپنا بہت کچھ قربان کیا ہے، بہت کچھ سہا ہے ، درد کے پہاڑ جھیلے ہیں، غربت کے آسیب کو جھیلا ہے، اپنے پیاروں کو قربان کیا ہے، پنڈی کے عقب میں آپ کے طاقتور خاندان کی نگری میں اپنی محبوب ترین لیڈر کو گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے۔
سرکار ہم بھی اپنے پیاروں کی یاد میں دھاڑیں مار کر روتے ہیں، ڈیپریشن کی آگ میں جلتے ہیں تمہاری پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے اپنے دریا کھوئے ہیں، اپنے گلیشئرز دشمن کے حوالے کئے ہیں سرکار برا نہ منائے گا ہم بھی آپ ہی کی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں ہماری تاریخ بھی آپ کے ملٹری کورٹس میں کب سے ماتم کناں ہے، ہم بھی ایک مدت سے حالت جنگ میں ہیں، ہم بھی ستر سال سے نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
ہاں ہماری جنگ اور آپ کی جنگ میں صرف اتنا فرق ہے ،ہم اپنی بنیادی ترین ضروریات کیلئے لڑ رہے ہیں، ہماری تعلیم، صحت، تحفظ اور آزادی آپ کی بے لگام طاقت کی وجہ سے شدید خطرے میں ہے۔
مائی لارڈ ہمیں بھی اپنا خاندان ہی سمجھ لیں ، ہمیں بھی اپنی اپنی زندگی کے ہنر آزمانے دیں، ہمیں بھی زندہ لوگوں کی طرح جینے دیں، ہم بھی اس ریاست سے جڑے ہوئے لوگ ہیں ، ہماری بھی اس ریاست سے توقعات ہیں، ہم بھی اسے خوشحال اور مہذب دیکھنا چاہتے ہیں خدارا اس ریاست کے ہر ادارے کا احترام کیجئے اور مل جل کر اس ریاست کو سنوارنے میں ہماری مدد کیجئے نہ کہ صرف اپنے خاندان کا سوچئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر