جموں: بھارت میں روہنگیا پناہ گزین شدید خوف کے سائے میں
پناہ گزینوں کا خوف کی وجہ سے قومی شہریت ترمیمی قانون پر بات کرنے سے انکار
جموں،
مقبوضہ جموں و کشمیر کے نروال اور بھٹنڈی علاقے میں روہنگیا کے مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کی کثیر آبادی جموں صوبے کے مختلف حصوں میں مقیم ہے۔القمرآن لائن کے مطابق جموں و کشمیر کی وزارت داخلہ کی طرف سے 2017 میں جاری اعداد و شمار کے مطابق جموں میں گزشتہ کچھ برسوں سے 5700 روہنگیا مسلمان رہ رہے ہیں۔
روہنگیا پناہ گزین یونین کے صدر مشتاق احمد کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے پاس متعدد ذرائع ابلاغ کے نمائندے پہنچے لیکن پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے کیمپوں میں موجود ہونے کی وجہ سے وہ میڈیا سے بات نہیں کر پائے ۔تاہم انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘برما میں ظلم و تشدد ہونے کی وجہ سے ہمیں کئی ملکوں میں ہجرت کرنا پڑا اور ہمیں یو این ایچ آر کی طرف سے رفیوجی بنایا گیا۔ آج ہم بہت پریشان ہیں کہ بھارتی حکومت ہمیں یہاں سے واپس برما نہ بھیج دے کیونکہ ہم یہاں انسانیت کی خاطر اپنی جان بچانے کے لئے آئے تھے، اب اگر بھارتی حکومت بھی برما واپس بھیج دے تو اس سے بڑی مصیبت ہمارے لیے کیا ہوگی؟
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم اس وقت تک برما نہیں جانا چاہتے جب تک وہاں کی حکومت ہمیں اپنا حق اور شہریت نہ دے۔’انہوں نے کہا کہ ‘ہم اسی وقت بھارت سے نکلیںگے جس وقت برما کی حکومت ہمیں اپنا باشندہ تسلیم کرے۔’
دیگر ایک پناہ گزین نورالاسلام نے قومی شہریت ترمیمی قانون پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ ذرائع م کے مطابق انہوں نے بھارت آنے کی وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برما میں حالات خراب ہوجانے کے نتیجے میں ہم بھارت میں اپنی جان بچانے کے لیے آئے تھے اور جب تک برما کی حکومت ہمارے حقوق بحال نہ کرے تب تک ہم وہاں نہیں جائیں گے
کیونکہ وہاں ہمیں جانوروں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کھلے عام ہو رہی ہے۔ ہم بھارتی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں اس ملک میں تب تک رہنے دیا جائے جب تک ہم برما جانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری