نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کشمیری صحافی ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بن گئے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں کافی مشکلات ہو رہی ہیں

کشمیری صحافی ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بن گئے
پولیس نے مبینہ طور پر صحافیوں کی مار پیٹ کی

سرینگر ،

مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں کافی مشکلات ہو رہی ہیں اور آئے روز بلاجواز تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
منگل کے روز شہر سرینگر میں واقع اسلامیہ کالج میں شہریت ترمیم بل کے خلاف کالج طلبا کی جانب سے کیے گئے احتجاج کے دوران قومی میڈیا اداروں سے منسلک دو مقامی صحافیوں انیس زرگر اور اذان جاوید کو پولیس کے بلاجواز تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے گئے تھے لیکن اسٹیشن ہاوس آفیسر راشد خان نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ذرائع  کے مطابق نیوز کلک سے وابستہ نامہ نگار انیس زرگر نے راشد خان پر ان سے مار پیٹ اور گالی گلوچ کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے پولیس کی اس کارروائی کو چند ہفتے قبل کی ایک خبر کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے رینا واری علاقے میں مقامی باشندوں کو مبینہ طور پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے سے متعلق انہوں نے ایک خبر رپورٹ کی تھی جس کا خمیازہ انہیں آج بھگتنا پڑا۔

انیس نے ساؤتھ ایشین وائر کو بتایا کہ اس رپورٹ میں عوام نے زیادتی کا ذمہ دار رعناواری پولیس اسٹیشن کے SHO راشد خان کو ٹھہرایا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے ساتھ دی پرنٹ کے نامہ نگار اذان جاوید کو بھی پولیس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا گیا۔

واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انیس نے کہا کہ ہم اسلامیہ کالج میں ہو رہے احتجاج کو رپورٹ کرنے گئے تھے۔ اور پولیس نے واقعے کی موبائل فون سے عکس بندی کرتے دیکھ اعتراض ظاہر کرنے کے بعد ہمارے شناختی کارڈ طلب کیے۔انیس نے دعوی کیا کہ انکی مار پیٹ اعلی افسران کے سامنے ہوئی

جنہوں نے بقول انیس کے انہیں اس بات سے نہیں روکا، باوجودیکہ ہمارے شناختی کارڈ بھی چیک کیے گئے۔ذرائع  کے مطابق راشد خان اور ایس پی ساجد شاہ نے اس ضمن میں میڈیا سے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

وادی کے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے متعلق یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وادی کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ فورسز کی جانب سے صحافیوں کو رپورٹنگ کے وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے، لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے لئے سنجیدہ نہیں رہی۔

About The Author