نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھارت کا شہریت سے متعلق متنازعہ بل کیاہے؟

شہریت کے نئے قانون کے تحت اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوں تو کوئی بات نہیں، انہیں دستاویزی ثبوت کے بغیر بھی بھارتی شہریت کے اہل سمجھا جائے گا

انڈیا میں 1955 سے شہریت کا ایک قانون نافذ تھا، اس قانون کے تحت کوئی بھی غیر ملکی جو بغیر سفری دستاویزات کے انڈیا میں داخل ہوگا یا مقررہ مدت سے زائد انڈیا میں گذارے گا، اسے غیر قانونی تصور کیا جائے گا، اِس قانون کی ایک شق کہتی تھی کہ جس شخص کو انڈیا میں رہتے ہوئے 11 سال ہو جائیں یا اتنی ہی مدت وفاقی حکومت کے لیے کام کرتے ہوئے ہو جائے تو ایسا شخص بھارتی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔

11 دسمبر 2019 کو بھارتیہ جنتہ پارٹی کی حکومت نے اِس قانون میں ترمیم کر دی، اب قانون ایسے تمام غیر مسلموں، جن میں ہندو، سکھ“ بدھ، جین، پارسی اور عیسائی شامل ہیں، کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ چھ سال بعد ہی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں بشرطیکہ اُن کا تعلق پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے ہو اور وہ 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے ہوں، گویا اِن تین ممالک سے وہ مہاجرین جن کا تعلق اِن چھ مذاہب میں سے کسی ایک سے ہو اور وہ چھ سال سے زائد مدت سے بھارت میں بغیر کسی دستاویزت کے ہوں اب بھارتی شہریت کے اہل ہوں گے۔ بظاہر اِس میں کوئی عجیب بات نہیں لگتی بلکہ یوں لگتا ہے جیسے بی جے پی کی حکومت کو ہمسایہ ممالک میں رہنے والی اقلیتو ں کا بہت درد ہے سو بھارتی حکومت نے ایسی اقلیتوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں، مگر حقیقت اِس سے بالکل مختلف ہے۔

بھارتی شہریت کے تر میم شدہ قانون نے مسلمانوں کی بھارتی شہریت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے اور وہ یوں کہ 1948 تک پاکستان سے آنے والے مہاجرین کو بھارتی شہریت کی سہولت حاصل تھی چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، پھر بنگلہ دیش بننے کے بعد بھارت نے کہا کہ جو بھی مہاجر 1971 تک بھارت آ جائے گا اسے بھی بھارتی شہریت مل جائے گی، سو اِس دوران لاکھوں مہاجرین مشرقی پاکستان سے بھارتی ریاست آسام میں آئے۔ اگست 2019 میں بھارت نے آسام میں تازہ نیشنل سٹیزن رجسٹر ( NCR ) جاری کیا جس کے تحت انیس لاکھ مسلمانوں کو اُن کی شہریت سے ہی محروم کر دیا گیا کیونکہ وہ یہ ثابت کرنے میں ”ناکام“ رہے تھے کہ وہ 24 مارچ 1971 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔

شہریت کے نئے قانون کے تحت اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوں تو کوئی بات نہیں، انہیں دستاویزی ثبوت کے بغیر بھی بھارتی شہریت کے اہل سمجھا جائے گا لیکن اب جبکہ یہ مسلمان ہیں تو انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ یہ اصلی ہندوستانی ہیں، انہیں ثبوت دیناہوگا کہ اِن کے باپ دادا برسوں سے یہاں رہتے آئے ہیں، وہ بھومی پتر ہیں، انہیں کوئی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، زمین کی ملکیت یا ایسی ہی دستاویزات پیش کرنا ہوں گی۔ انوپم کھیر ٹائپ کا متعصب ہندو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون کی ضرورت ہے اسے پورا کیا جانا چاہیے مگر زمینی صورتحال بالکل اِس کے برعکس ہے۔

اول تو یہ NCR ہی مضحکہ خیز ہے، اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے سابق صدر فخر الدین علی احمد کا ایک بھتیجا بھی اس رجسٹر سے باہر ہے گویا اب اسے بھی بھارتی شہریت ثابت کرنی ہوگی جس کا چچا 1974 میں ہندوستان کا صدر تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ آسام تو کیا پورے ہندوستان میں زمین کی ملکیت بہت کم لوگوں کے پاس ہے، اپنے پنجاب میں بھی یہی حال ہے، پسماندہ علاقوں میں اب بھی کم ہی لوگ شناختی کارڈ بنواتے ہیں کجا کہ انہیں کہا جائے کہ چالیس پہلے اپنے دادا کا شناختی کارڈ یا زمین کی ملکیت کا ثبوت لاؤ تو یہ بیچارے ان پڑھ غریب کہاں جائیں گے، ایک راستہ NCR سے نام نکالے جانے کے خلاف اپیل کرنے کا ہے، مگر بھارتی عدالتوں میں پہلے ہی لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ایسے میں مغربی بنگال کے کسی غریب بے بس مسلمان کی شہریت کا مقدمہ سننے کا وقت کسی ہندو جج کے پاس کتنا ہوگا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی خواہش ہے کہ 2024 تک بنگال آسام کی طرح پورے ملک کا NCR ایسا بنایا جائے جس سے ایک ایک ”درانداز“ کا پتا چل سکے تاکہ اسے بھارت سے نکال باہر کیا جا سکے، اب اگر بی جے پی اپنے اِس منصوبے کو آگے بڑھاتی ہے تو شہریت کے نئے قانون کے تحت اگلے مرحلے میں بھارت میں دو قسم کے غیر قانونی مہاجرین ہوں، ایک مسلم مہاجرین جنہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھارتی شہری کیسے بنے اور دوسرے غیر مسلم مہاجرین جن کا تعلق اگر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہوا تو انہیں بھارتی شہریت لینے کے لیے دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہو سکتا ہے اِس مرحلے میں شاہ رُخ خان، عامر خان اور سلمان خان کو بھی ثابت کرنا پڑے کہ وہ بھومی پتر اور ہندوستانی شہری ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ ثابت نہ کر سکیں بالکل اسی طرح جیسے ہندستانی سپریم کورٹ میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ 1528 سے 1856-7 تک مسلمان بابری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔

اس پورے معاملے کے دو پہلوؤں سے مجھے خاص دلچسپی ہے، ایک تو وہی پرانی بحث کہ کیا محمد علی جناح کا مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا فیصلہ درست تھا اور کیا ہمیں ”تھینک یو جناح“ کا ہیش ٹیگ چلانا چاہیے۔ میری رائے میں یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں، بھارتی مسلمانوں پر ظلم عظیم ہو رہا ہے، تاریخ کی ایک فاشسٹ حکومت وہاں منظم طریقے سے مسلمانوں کے گرد شکنجہ کس رہی ہے، ایسے میں ہمیں انہیں مزید کسی بڑے انسانی المیے سے بچانے کی ضرورت ہے، ہم یہ کام کر سکتے ہیں یا نہیں ایک علیحدہ بحث طلب بات ہے مگر کم ازکم اُن کے زخموں پر نمک پاشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ کو درست تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، سن 47 ء سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب پاکستان کی شکل میں ایک عظیم اسلامی مملکت وجود میں آئے گی تو بھارت میں کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو گزند پہنچا سکیں۔ اب اُس عظیم اسلامی مملکت کا حال ہمارے سامنے ہے، ہمارے اپنے شہری محفوظ نہیں ہندوستانی مسلمانوں کی حفاظت کہاں سے کریں گے۔ رہی سہی کسر ہندوتوا کے فلسفے نے پوری کر دی ہے جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب 47 ءمیں مسلمان اپنے حصے کا ملک لے کر علیحدہ ہو گئے تو اب اُن کا بھارت میں کیا کام، یہاں تو ہندو راج ہی چلے گا۔

دوسرا پہلو اِس معاملے کا یہ ہے کہ اِس پر انڈین میڈیا اور اشرافیہ نے کیسا رد عمل ظاہر کیا ہے، زیادہ تر میڈیا تو بی جے پی کی زبان ہی بول رہا ہے مگر کچھ اخباری ویب سائٹس ہیں جو اِس فاشزم پر بہادری سے کڑی تنقید کر رہی ہیں، انڈین فلم انڈسٹری کا کردار شرمناک ہے، بظاہر خوبصورت چہروں والے اداکار اِس فسطائیت میں نریندر مودی کے ساتھ ہیں، بہت کم ایسے ہیں جو بلا خوف خطر اِس پر تنقید کر رہے ہیں جن میں مہیش بھٹ، کُن کُنا سین شرما، ارملا میٹونڈ کر، پوجا بھٹ، انوراگ کیشپ، ہما قریشی وغیرہ شامل ہیں۔ فسطائیت کے دور میں سچ بولنا بہت ہمت اور حوصلے کا کام ہے، ایسے لوگ ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔

آخر میں کچھ ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اُس پر بہت بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کے ساتھ کچھ زیادہ مختلف سلوک نہیں کرتے، جناح نے ہمیں جو پاکستان دیا تھا اُس کا سپیکر ہندو اور کابینہ کے بیشتر ارکان غیر مسلم تھے، جناح صاحب نے اپنی تقاریر میں سیکولر ازم کا لفظ چاہے نہ استعمال کیا ہو مگر وہ سر تا پا سیکولر تھے، یہ اور بات ہے کہ آج کے پاکستان میں اگر جناح صاحب اپنا وہ لائف سٹائل اپنانے کی کوشش کرتے جو اُن کا بمبے یا کراچی میں تھا تو کوئی بعید نہیں تھا کہ اُن سے بھی کوئی لونڈا وضاحت مانگتا کہ مسٹر جناح ذرا بتائیں تو آپ کا عقیدہ کیا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر پوری ریاست تماشہ دیکھتی؟

About The Author