صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی ہے۔
بار کونسلز کی نمائندگی کے لیے حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا میں سپریم کورٹ، پنجاب، بلوچستان، اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کروں گا۔
حامد خان نے کہا میرے دلال منیر اے ملک سے تھوڑے مختلف ہوں گے، میں اسٹرکچرل معاملات پر دلائل دوں گا، اس ضمن میں ہمیں تین معاملات پر تحفظات ہیں۔ جن میں عدلیہ کی آزادی سرفہرست ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپکی درخواستوں میں استدعا کیا ہے؟
حامد خان نے کہا میری درخواستوں میں بھی استدعا منیر اے ملک والی ہے، ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے،ریفرنس دائر کرنے سے پہلے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیکر خارج کیا جائے۔
مختلف بارز کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سب سےپہلےآئین کےآرٹیکل209کی ذیلی شق5پربات کروں گا،آئین کے آرٹیکل209کوپہلی مرتبہ1962کےآئین میں شامل کیاگیا۔ 1973کےآئین میں بھی209میں زیادہ تبدیلی نہیں کی گئی۔
حامد خان نے کہا شروع میں2ہائیکورٹس تھیں اور2ہائیکورٹ کےچیف جسٹس صاحبان تھے،1976میں4ہائیکورٹس بنیں اوراب ملک میں5ہائیکورٹس ہیں،1973کےآئین میں آرٹیکل209میں صدرپاکستان صرف اپنی رائےقائم کرسکتاتھا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ 1973کےآئین میں سترہویں ترمیم کےبعدسپریم جوڈیشل کونسل بھی اپنی رائےقائم کرسکتی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کوآرٹیکل209 کے تحت رولزبنانےکااختیارنہیں دیتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کےآرٹیکل209کااختیاراستعمال کرنےکی اجازت کونسل کوفراہم کرتاہے۔
حامد خان نے کہا سال2005میں سپریم جوڈیشل کونسل نےچندضوابط بنائے،میں انہیں قوائدنہیں کہوں گا،صدرمملکت ملنےوالی اطلاعات پراپناذہن استعمال کرتےہیں،قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف آنےوالےریفرنس کےپیراگراف8اس بات کےخلاف جاتی ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا ریفرنس کاپیراگراف8صدرکاآزادذہن استعمال کرکےاپنی رائےقائم کرنےکی نفی کررہاہے،آئین کی اسکیم واضح کرتی کہ صدرمملکت ریاست کےتمام ستونوں کاسربراہ ہے،صدرمملکت صرف حکومت کاسربراہ نہیں ہوتا۔ صدرمملکت خودکوحکومت تک محدودنہیں کرسکتا۔
حامد خان نے کہا آئین کاآرٹیکل50واضح کرتاہےکہ مجلس شوریٰ دونوں ایوانوں پرمشتمل ہےاورصدراسکاحصہ ہے،آرٹیکل 256واضح کرتاہےکہ صدران دونوں ایوانوں سےخطاب کرتاہے،آرٹیکل58صدرمملکت کواسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے ۔ آرٹیکل58ون میں صدروزیراعظم کی سفارش پراسمبلی تحلیل کرتاہے۔
وکیل حامد خان نے کہا آرٹیکل58ٹواےمیں صدرمملکت وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب ہونےاوردوسرےکسی رکن کےوزیراعظم منتخب نہ ہونےکی صورت میں اسمبلی تحلیل کرسکتاہے،آرٹیکل75کےمطابق جب صدرکےپاس کوئی بل آتاہے تو15دن کےاندرترمیم کیلئےواپس ایوان کوبھیج سکتاہے۔ آرٹیکل89صدرکوآرڈیننس جاری کرنےکااختیاردیتاہے۔
حامد خان نے کہا آرٹیکل90میں صدروزیراعظم اورکابینہ کی سفارش پروفاق کی ایگزیکٹواتھارٹی استعمال کرتاہے، آرٹیکل 91ایگزیکٹو،وزیراعظم اورکابینہ صدرکواپنےاختیاراستعمال کرنےکی سفارش کرتےہیں۔ آرٹیکل48کی شق ون میں صدروفاقی کابینہ اوروزیراعظم کی سفارش کو15دن میں واپس کابینہ کوبھجواسکتاہے۔
وکیل حامد خان نے کہا 15دن کےبعدمزید10دن گزرنےکےبعدصدراس سفارش پرعمل درآمدکرنےکاپابندہوتاہے،ایگزیکٹوکی زمہ داری ہےکہ وہ صدرکوبیرونی واندرونی معاملات سےآگاہ رکھے،آئین کےآرٹیکل175اے،177اور193مشترکہ طورپرصدرمملکت کوسپریم کورٹ اورہائیکورٹ کےججزکی تقرری کااختیاردیتاہے،
حامد خان نے کہا آرٹیکل186میں صدررائےدینےکااختیاررکھتاہے،آرٹیکل209صدرمملکت کوحتمی اتھارٹی قراردیتاہے،آئین پاکستان میں صدرمملکت ریاست کاغیرفعال سربراہ نہیں ہے،آئین میں صدرمملکت ریاست کےمختلف حصوں سےانٹریکٹ کرتاہے۔
وکیل حامد خان نے کہا بطورریاست کےسربراہ صدرکاکام ریاست کےتمام حصوں سےاوپرہے،صدرریاست کےتمام حصوں کوالگ بھی کرتاہےاورآپس میں رابطہ بھی قائم کرتاہے،صدرکواس بات کوبھی یقینی بناناہےکہ ریاست کےحصوں کےدرمیان معاملات کوانصاف سےچلائے۔
جسٹس منیب اختر نےسوال کیا کہ کیاصدرمملکت ازخودریفرنس براہ راست سپریم کورٹ کوبھیج سکتاہے ہے؟ کیاایسانہیں کہ صدرمملکت کابینہ کی سفارش کاپابندہوتاہے؟
حامد خان نے کہا کہ صدرمملکت کسی معاملےپرعدالت سےرائےطلب کرسکتےہیں،
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر شکائیت وزیراعظم کی طرف سے آئے تو کیا اس صورت میں بھی وزیراعظم کی سفارش درکار ہوگی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ کیسے ممکن کہ ایک معاملے میں دو انکوئریاں کی جائیں کہ صدر بھی انکوائری کرے اور سپریم جوڈیشل کونسل بھی؟
حامد خان نے کہا کہ ایگزیکٹو ایکشن میں وزیراعظم کی سفارش لازم تاہم ججز کے معاملے میں وزیراعظم کی سفارش لازم نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا اگر صدر جج کی انکوائری کریگا تو عدلیہ کی آزادی کہاں کھڑی ہوگی؟ انکوائری میں تو جج کو ایک سے زائد بار بلایا بھی جا سکتا ہے۔
حامد خان نے کہا کہ رائے قائم کرنے کے لیئے کی جانے والی انکوائری ابتدائی نوعیت کی ہوتی ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا حامد خان صاحب ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے متعلقہ ریفرنس کے مواد پر بات کریں۔
حامد خان نے جواب دیا وزیراعظم کی سفارش اور صدر کی رائے کا ایک ہوم ضروری نہیں۔
بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا متعلقہ ریفرنس میں صدر نے لکھا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی سفارش پر اپنی رائے قائم کی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا آپکی کیا رائے ہے کہ اس ریفرنس میں صدر مملکت نے جو کیا ، اس سے زیادہ اور کیا کرنا تھا؟
یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پرآج کی سماعت کا احوال
حامد خان نے جواب دیا کہ صدر کو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے سے پہلے ایک عبوری انکوائری کرنا تھی۔
حامد خان کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ