پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں جمہوریہ ترکی سے آئی ہوئی ناول نگار یشار سیمان کے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی زندگی پر لکھے ہوئے ناول جو ترکی، انگریزی اور اردو میں شائع ہوا ہے کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
میری والدہ نے اپنے شہید والد ،اپنے شہید بھائیوں شہادت کی تاریخ لکھی تھی اور جب میں والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں کہ میں ان کی شہادت لکھوں اور اب جبکہ مجھے 12-13سال ہوگئے ہیں مجھ میں یہ حوصلہ نہیں آیا کہ میں ان کی شہادت کے متعلق لکھ سکوں۔
ایک بیٹے کے لئے ویسے بھی مشکل ہوتا ہے اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو شہید نہ کہ صرف ہماری قائد تھیں بلکہ میری والدہ بھی تھیں۔ انشااللہ تعالیٰ شہید بی بی کی کہانی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔ ان کی کہانی کو سختی سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے مگر کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ یہاں پاکستان میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا نام مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک تویہ جو اسلام آباد کا نیا ائیرپورٹ ہے جس کا نام انٹرنیشنل بینظیر بھٹو ائیرپورٹ ہوا کرتا تھا وہاں پرپاکستان کا پیسہ ضائع کرکے اور ایکسٹرا خرچ کرکے اس کا نام مٹایا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ جو انقلابی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پہلا انقلابی سوشل سیفٹی پروگرام بینظیر انکم سپورٹ جس کا نام مٹایا گیا ہے
اگر کوئی اس جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو فخر کرتا اس پروگرام پرمگر پاکستان میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا نام مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان میں اس پروگرام میں بھی سازشی لوگ شہید بینظیر بھٹو کا نام مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ
ان چھوٹے ہتھکنڈوں سے شاید اس ملک کی عوام بھول جائے مگر بینظیر بھٹو ایسی تھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو آپ کیسے چھپائیں گے۔ آپ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا نام کیسے مٹائیں گے آپ بی آئی ایس پی کارڈ سے تو تم نام مٹا سکتے ہو، ائیرپورٹ سے تو آپ نام ہٹا سکتے ہو مگر اس ملک کی عوام کے دلوں سے یہ نام نہیں نکال سکتے۔ وہ جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے سے ان کو نشانہ بنایا جا رہاہے۔
جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم کی مہم چلا رہی تھیں توتمام مخالفین ان کے خلاف اکٹھے ہوگئے کہ خاتون وزیراعظم نہیں بن سکتیں،یہ نہ اسلامی طور پر معاشرتی طور پر نہیں ہو سکتیں اور ان پر فتوے لگائے گئے ۔ عام طور پر جمعہ کے روز مسجدوں میں امام تقریریں کرتے تھے کہ خاتون کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتیں۔ اگر آپ نے بینظیر بھٹو کو ووٹ دیا تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔
اس ساری صورتحال میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو ان ساری قوتوں سے ڈری نہیں اور وہ وزیراعظم بنیں۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ 1988 کے الیکشن میں بہت زیادہ دھاندلی کی گئی پہلا تجربہ تھا کہ کیسے سلیکٹڈ تیار کئے جاتے ہیں اور بنائے جاتے ہیں۔ وہ تمام مخالفین اکٹھے ہوگئے ایک خاتون کے خلاف۔ ان کے خلاف اکٹھے ہو کر ہر روز مہم چلائی گئی۔
وہ پہلی حکومت ہی نہیں دینا چاہتے تھے اس وقت جو ہمارے جنرل صاحب تھے اور وہ پہنچے صدر زرداری کے پاس ،انہوں نے کہا کہ آپ وزیراعظم بن جائیں۔ مسئلہ یہ کہ خواتین کو کیسے سلیوٹ کریں۔ صدر زرداری نے کہا کہ ایک مسئلہ ہے آپ مجھے وزیراعظم بنائیں گے، کسی اور کو وزیراعظم بنائیں گے لیکن ملک کے عوام نے تو صدر زرداری یا کسی اور کو ووٹ نہیں دیاانہوں نے ووٹ تو بینظیر بھٹو کو دیا ہے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہ برابری کے حق میں نہیں ہے اور اگر آپ اس کو آج کے لحاظ سے دیکھیں چاہیں ہم کہیں یا نہیں کہیں ۔ برابری کا کا مطلب کیا ہے کہ برابری کا مطلب یہ ہے کہ آپ مانتے ہوکہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ مرد اور عورت کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں اور محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ حق دے کر یہ ثابت کر دیا
بلکہ نہ کہ عورتوں کے حق ملنے چاہئیے بلکہ وہ کام کر سکتی ہیں مرد بھی کر رہے ہیں۔ اور شاید کچھ لوگ کہیں گے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے یہ دکھایا کہ خواتین تو وہ کام کرکے مردسے بہتر بھی کر سکتی ہیں ۔ وہ پیچھے نہیں ہٹیں بیٹی ہونے کے ناطے، عورتے ہونے کے ناطے وہ ضیاءکی جیل میں بیٹھی رہیں۔ باہر سویٹزرلینڈ یا دوسرے ممالک میں نہیں گھومیں۔
اگر ہمارے پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے تو شہید محترمہ بینظیر بھٹو سکھر جیل میں پڑی رہیں اور برف کا انکار کر تی رہیں کہ آپ مجھے برف نہ دیں جب تک آپ میرے ہر کارکن کو برف نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو بڑے بڑے لیڈر بن گئے بڑی بڑی شاعری بھی کرتے ہیں اور پنجاب پر حکمرانی بھی کرتے ہیں،ملک پر حکمرانی کرتے ہیں جب پولیس آجاتی ہے ،
کوئی موومنٹ آجاتی ہے تو اپنے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ جب ان کے کارکن پر حملہ ہوتا ہے اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ تو دور کی بات جو سیکنڈ قیادت ہے وہ بھی ڈرکے مارے کونے میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ پاکستان پیپلزپارٹی تھی جب ضیا کی آمریت ہو چاہے مشرف کی آمریت ہو، شہید محترمہ بینظیر بھٹو پیچھے نہیں سب سے آگے کھڑی رہی۔ جب سلیکٹڈ حکومت کے خلاف شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے لانگ مارچ کر رہی تھی تو وہ پیچھے سے قیادت نہیں بلکہ آگے سے قیادت کر رہی تھی۔
وہ آنسو گیس کے سامنے آرہی تھیں، کارکنوں نے پارٹی کے عہدیداروں نے ان کے سامنے آکر لاٹھیاں کھائیں اور پتھر کھائے تاکہ وہ اپنی قائد کو تحفظ دے سکیں مگر وہ سامنے کھڑی رہیں۔ آج ہم نے دیکھے ہیں کہ کیسے لانگ مارچ ہوتے ہیں۔ کنٹینر کے اندر بیٹھ کر ہاتھ ہلائے جاتے ہیں،
ایک پتھر بھی نہیں پھینکا جاتا آنسو گیس تو دور کی بات ہے۔ اور کہلواتے خود کو انقلابی ہیں مگر محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے آنکھوں میں آنکھیں ملا کر مقابلہ کیا۔ ایسے وقت جب پورے ملک کی قیادت ڈری ہوئی تھی دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف ایکشن لینا تو دور کی بات اتنے خوفزدہ تھے کہ ہمارا آمر بھی وردی میں ہوتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ایک عورت تھی جو اٹھ کر جو ان کے خلاف بولیں باقی سب چپ ہی چپ تھے۔ دنیا میں دہشتگردی وار ان ٹیرر۔ میں مسلم امہ کی قیادت کے بارے میں بات نہیں کروں گا ۔
مگر یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان کی طرف سے ساری قیادت خاموش تھی ہمارے بچے مارے جا رہے تھے آنے والے مستقبل کو خراب کیا جا رہا تھا برین واشنگ کیا جا رہا تھا۔ سیاسی مدرسوں میں سکھایا جا رہا تھا کہ آپ بم کیسے بنائیں گے اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک خاتون وہ جانتی تھیں میری ذمے داری ہے ۔ یہ ملک کے جو آنے والے مستقبل کے بچے ہیں جو تباہ ہو رہے ہیں
اس دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف کھڑی ہوگئیں اور آواز اٹھاتی رہیں آخری وقت تک لڑتی رہیں یہاں تک کہ شہادت قبول کر لی مگر اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹیں، اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں، آج کہا جاتا ہے کہ یو ٹرن لینا کسی کو ایک لیڈر بنا دیتا ہے۔ یوٹرن لئے بغیر لیڈر ہی نہیں بن سکتا، ہمیں سکھایا گیا آپ موقف پر ڈٹے رہوں ، آپ اصولوں پر ڈٹے رہو، اپنے نظریے پر قائم رہو اگر شہادت بھی قبول کرنا پڑے تو شہادت قبول کرنے کے لئے تیار رہو۔
پر اپنے نظریے سے اپنے موقف سے یوٹرن نہیں لینا۔ ایک سچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کی جو ترقی پسند قیادت جمہوریت پسند قیادت ان کی کردار کشی زندگی میں جتنی ہوئی مگر شہادت کے بعد فوت ہونے کے بعد بھی کردار کشی چلتی رہی ہے۔
اس کے بعد یہ ہے کہ وہ خود موجود نہیں رہیں اپنا جواب دینے کے لئے اپنا موقف بتانے کے لئے، اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے۔ یہ ہم سب پر ذمے داری ہے کہ اپنے جو قائد ہیں ان کا دفاع کریں جن کی یہ سوچ ہے آنے والی نوجوان نسل جو اٹھارہ سال کا بھی نہ ہو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو بھول جائے تو شہید ذوالفقار علی بھٹو تو دور کی بات ہے۔
برین واش کرنا کہ کرپٹ کرپٹ کرپٹ کہ شاید وہ مان جائیں ہم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بتائیں کرپٹ جو ہوتے ہیں وہ بھاگ جاتے ہیں۔ کرپٹ جو ہوتے ہیں وہ یو ٹرن لیتے ہیں مگر جو اپنے اصولوں پر قائم ہوتے ہیں وہ خون دیتے ہیں، وہ خون دینے والے ہوتے ہیں۔
خون دینے والے کرپٹ نہیں آپ کا سسٹم کرپٹ ہے۔ یہ پٹریاٹ کی جو اس ملک میں ابھی تک ہے جس پٹریاٹ میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو تیس سال تک وہ پیٹریاٹ جو آج تک اس ملک کے بچے کو خواتین کو برابری کے لحاظ سے نہیں دیکھتے وہ سسٹم کرپٹ ہے ہماری قیادت نہ کل کرپٹ تھی نہ آج کرپٹ ہے۔
آج بھی مجھے یاد ہے کہ 2007ءکے الیکشن ہو رہے تھے شہید محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان میں وزیراعظم کی مہم چلارہی تھیں فرانس اور امریکہ میں بھی خواتین کر رہی تھیں۔ امریکہ میں ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹ سے ۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ایک نہیں تین خواتین وزیراعظم بنیں گی
اور اتفاق سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوگئیں اور دو خواتین پیٹریاٹ سے مقابلہ کرت ہوئے الیکشن ہار گئیں۔ آج تک امریکہ کوشش کر رہا ہے ہماری خاتون صدر بنے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر