ایک دوست اپنے پیر کے بارے میں بتا رہا تھا کہ میرا پیر بہت کرامت والا آدمی ہے ایک بار دربار سے واپسی پر ایک جگہ پر دیکھا پیٹر پڑا تھا جو پیر صاحب نے پیٹر کے مالک سے کہا پیٹرچلاو میں دل کر رہا ہے نہانے کےلیے تو اس پیٹر مالک نے کہا کہ پیٹر میں تو تیل نہیں ہے تو پیر صاحب نے کہا آپ پیٹر کو چلائیں تو سہی اس نے چلایا تو پیٹر چل پڑا اور پھر دن رات چلتا رہا پانی استمعال کیا کوئی 22 دن مسلسل چلا پھر کسی شیطان صفت آدمی نے پیٹر کے مالک کو کہا کہ چیک کرو تیل کتنا ہے بس جب ٹیکی کھولی تو ٹینکی خالی تھی اور پھر دوبارہ پیٹر نہیں چلا۔
پیر کی کرامتیں سن کر پہلے تو بہت ہنسا کہ جو پیر 22 دن بغیر تیل کے پیٹر چلا سکتا ہے وہ پاکستان کے تیل کے مسائل کیوں نہیں حل کرتا؟ ہمارا ہر آنے والا حاکم سعودی عرب سمیت دوسرے اسلامی ملکوں سے سب سے پہلے اسی تیل کی بھیک مانگنے کے لیے جاتا ہے ایسے پیر صاحب ہی یہ مسلہ حل کر دیں۔ کبھی کسی پیر کے بارے سنتےہیں کہ وہ دریا سے بغیر کشتی اور سواری کے عبور کر جاتے ہیں کبھی کسی پیر کو خانہ کعبہ میں جاتا ہوا جانور نظر آ جاتا ہے یہ کیسے کیسے پیر ہیں ان کو عورتوں پر جن کا سایہ نظر اتا ہے لیکن مہنگائی کا جن نہیں نظراتا ان کو بہت دور کعبہ میں تو کچھ نظر آتا ہے لیکن ملک میں جاری قتل و غارت کرنے والے مجرم نظر نہیں آتے؟ ان کو رشوت لیتے سرکاری لوگ کیوں دیکھائی نہیں دیتے ؟
کب تک یہ پیرازم چلے گا؟ ہمارا معاشرہ ان جیسے معاشرتی جہالت کو کیوں اور کب تک قبول کرے گا؟ پیر خود تو ماہر ڈاکٹر سے اپنا علاج کرتا ہے جب کہ مرید کو ہر مرض پر پھل دھاگا اور توید دے گا خود بکرے کا گوشت پسند کرتا ہے اور مرید کو کبھی روکھی روٹی بھی نہیں دیتا ہر سال عرس کے نام پر کروڑوں روپے عرس ٹیکس کی وصولی واجب سمجھتا ہے جب کہ کسی مرید کے رشتہ دار کی قبر پر فاتحہ کی زحمت نہیں کرتا مرید بھی ایسے لوگ ہیں اللہ پاک قادر مطلق ہے لیکن پھر بھی وہ پیر کی کرامت سمجھتے ہیں کہ اس سال جو گندم کی فصل اچھی ہوئی ہےتو پیر نے دعا کی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک پیر کے پاس ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر اور ساتھ دو کلو کا مٹھائی کا ڈبہ بھی ساتھ تھا اور بڑے فخر سے بیٹے کو کہتی ہے پیر صاحب کے ہاتھ کو بوسہ دو ” آج اگر قائد اعظم میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا ہے تو پیر صاحب کی دعا کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے”۔ وہ بیٹا بھی نافرمانی نہیں کرسکا حالاں کہ دن رات محنت کر کے اس نے انٹری ٹسٹ پاس کیا تھا اور ایف ایس سی میں بھی کالج کو ٹاپ کیا تھا۔
پیر صاحب کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور مرید کے بچوں کو اپنے جانور کی دیکھ بھال کی اہم ذمہ داریاں دے دیتا ہے گھر کے سارے سامان بھی لینے اسی مرید کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ مرید کی بیوی گھریلو ملازمہ وہ بھی بغیر تخواہ کے
ایسا کیوں ہے اور کب تک رہے گا؟ یہ کرامتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی پھر پیر صاحب کی اولادیں جو گل کھلاتی ہے انسانیت شرما جائے کبھی بھی کسی نے کوئی شیکائت کی ہو لیکن یہ لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں حالاں کہ قانون سب کے لے برابر ہے، ہم جب تک پیر کی اس کرامتوں سے جان نہیں چھڑائیں گے یہ لوگ خوشحال رہیں گے اور ہم ایسے ہی لاعلم ۔ جب کہ اللہ پاک نے قران پاک میں انسان کی زندگی گزارنے کے سارے طریقے بھی بتا دیے ہیں اور ہر مرض کی دعا بھی بتا دی ہے۔ اللہ پاک مریدوں کو پیر کی کرامتوں سے محفوظ رکھے ۔
کب تک یہ پیرازم چلے گا؟ ہمارا معاشرہ ان جیسے معاشرتی جہالت کو کیوں اور کب تک قبول کرے گا؟
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی