انڈین پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے 12 گھنٹے طویل گرما گرم بحث کے بعد تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق متنازع ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔ بی بی سی ہندی کے مطابق لوک سبھا نے متنازعہ ترمیمی بل کی منظوری پیر کو رات گئے دی۔
اس بل کے حق میں 311 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں 80 ووٹ پڑے۔ بل کی لوک سبھا سے منظوری کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی خوشی کا اظہار یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’خوشی ہوئی کہ لوک سبھا نے ایک بھرپور اور پرزور بحث کے بعد شہریت (ترمیمی) بل 2019 منظور کر لیا۔ میں اس بل کی حمایت کرنے پر مختلف اراکین پارلیمان اور پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
اس مسودۂ قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے انڈیا آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
جب پیر کو وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایوان میں بل پیش کرنے کی اجازت چاہی تو حزبِ اختلاف کے اراکین نے ایوان میں خوب ہنگامہ برپا کیا۔ حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور اس کی کاپی پھاڑ دی۔ اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ
بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے؟ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اس بل کو لانے کا مقصد بنگالی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
اسد الدین کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسودہ قانون ہٹلر کے قوانین سے بھی زیادہ برا ہے۔ ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کانگریس پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ کانگریس نے ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا۔
بعدازاں لوک سبھا میں اس بل کو پیش کرنے کے معاملے پر ووٹنگ ہوئی جہاں اس کے حق میں 293 جبکہ مخالفت میں 82 ووٹ پڑے۔ ووٹنگ سے قبل کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری سمیت حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں نے اس معاملے پر مرکزی حکومت کے مؤقف کی مخالفت کی۔
ادھیر رنجن چودھری نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل معاشرے کو پیجھے لے جانے والا ہے اور اس کا مقصد ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانا ہے۔ ادھیر رنجن چودھری نے پارلیمان میں ہوئی ہنگامہ آرائی کے دوران آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
یہ آئین کی روح کے منافی ہے جس میں سیکولرازم، مساوات اور سوشلزم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ اس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل0.0001 فیصد بھی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور اس بل میں کہیں بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔
امت شاہ نے کہا ہے کہ یہ بل کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور اس بل کے کسی بھی پہلو سے آئین کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔ اس بل کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر لوگ آرٹیکل 14 کی بنیاد پر شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اس آرٹیکل میں درج مساوات کے حق کی نئے بل سے خلاف ورزی ہوتی ہے۔
تاہم امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ آئین کی یہ دفعہ پارلیمنٹ کو مناسب بنیادوں پر قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔ امت شاہ نے دلیل دی کہ 1971 میں اندرا گاندھی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جتنے لوگ بنگلہ دیش سے آئے ہیں انھیں شہریت دی جائے گی،
تو پاکستان سے آنے والے لوگوں کو شہریت کیوں نہیں دی گئی۔ انھوں نے یوگانڈا سے آنے والے لوگوں کو بھی شہریت دیے جانے کا حوالہ دیا۔ انڈیا کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون کو سمجھنے کے لیے تینوں پڑوسی ممالک کو سمجھنا ہوگا۔ امت شاہ نے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آئین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
تینوں ممالک کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ امت شاہ نے نہرو۔ لیاقت معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اقلیتوں کی حفاظت کی بات کی گئی جس پر انڈیا میں تو عمل کیا گیا لیکن دوسری طرف ایسا نہیں ہوا۔ اس پر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ برادری پر ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ امت شاہ کا کہنا ہے کہ
بل میں مذکور پڑوسی ممالک میں پارسیوں، ہندوؤں، سکھوں اور دیگر برادریوں پر مذہبی مظالم ہوئے ہیں۔ امت شاہ نے کہا کہ کسی نے بھی مسلمانوں کو شہریت کے لیے درخواست دینے سے نہیں روکا ہے۔ ‘میں نے ماضی میں بہت سارے لوگوں کو دیا ہے، میں اسے اور بھی دوں گا۔ اگر کانگریس پارٹی مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہیں کرتی تو پھر اس بل کی ضرورت نہیں پڑتی۔’
بل میں کیا ہے؟ بی بی سی کے دلی سے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق لوک سبھا سے منظور ہونے والے بل کے ذریعے سنہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مرکزی کابینہ کے ذریعے منظور کیے گئے اس بل میں کہا گیا ہے کہ
ان مذہبی برادریوں کے تارکین کو اس بنیاد پر شہریت دی جائے گی کہ انھیں اپنے سابقہ ملک میں ’مذہبی مظالم اور تفریق‘ کا سامنا کرنا پڑا یا انھیں مذہبی جبر کا خدشہ لاحق تھا۔ اس بل سے ارونا چل پردیش، ناگا لینڈ اور میزورم کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ آسام، تریپورہ اور میگھالیہ کی شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی علاقوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
گذشتہ عشروں میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے لاکھوں ہندو، بودھ اور سکھ تارکین وطن انڈیا آئے اور عشروں سے شہریت کے بغیر یہاں رہ رہے ہیں۔ اس بل کا مقصد ان غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینا ہے
لیکن اس کا فوری سبب آسام میں حالیہ شہریت کے اندراج یعنی این آر سی کا عمل ہے۔ آسام میں پوری آبادی کی شہریت کے دستاویزات کی جانچ کے بعد انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں کو شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان میں غالباً اکثریت بنگالی بولنے والے باشندوں کی ہے۔
اس مرحلے پر ان افراد کو غیر قانونی تارکین وطن نہیں قرار دیا گیا ہے لیکن انھیں اب غیر ملکی ٹرائبیونلز میں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ غیر ملکی نہیں ہیں۔ اگرچہ این آر سی میں یہ عام نہیں کیا گیا ہے کہ انیس لاکھ ساٹھ ہزار باشندوں میں سے کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان لیکن پارلیمنٹ میں مختلف اراکین کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ
ان میں بارہ لاکھ سے زیادہ ہندو ہیں۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں غیر قانونی ہندو تارکین وطن کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، حکومت انھیں پناہ گزیں تصور کرتی ہے اور انھیں شہریت دی جائے گی۔
حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بنگالی بولنے والے جن مسلمانوں کو شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے ان میں ایک بڑی تعداد ایسے باشندوں کی ہے جو آسام کے شہری ہیں لیکن انھیں نام کی غلطیوں یا دستاویزات میں خامیوں کے سبب شہریت سے باہر کیا گیا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مودی حکومت جن لاکھوں ہندو غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لیے شہریت کا ترمیمی بل لا رہی ہے، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔
ابتدا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور آئین کی رو سے مذہب کی بنیاد پر کسی سے تفریق نہیں برتی جا سکتی۔ ان کی تجویز تھی کہ اس بل میں شہریت کے لیے مذہبی بنیاد کو ہٹا دیا جائے یا اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کر لیا جائے
لیکن حکومت نے ان کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کے بارے میں اب مبہم رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ بل کسی دشواری کے بغیر پارلیمنٹ میں منظور کر لیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوری انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کا پہلا قانون ہو گا۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ
اس بل کے ذریعے مودی حکومت نہ صرف یہ کہ ہندو غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دینا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد ملک اور دنیا کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ انڈیا اکثریتی ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں کی جمہوریت ہندو اکثریتی جمہوریت ہے۔
مودی اور امت شاہ نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دی ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا۔ امت شاہ نے کہا ہے کہ سنہ 2024 تک ایک بھی غیر ملکی مسلم تارکین وطن کو ملک میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس طرح کی نفرت کی سیاسی مہموں سے بی جے پی ماضی میں بھی انتخابی فائدہ اٹھا چکی ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس