جھنگ اب نہ چاہتے ہوئے بھی بدلے گا جھنگ میں تبدیلی کی ایک کرن مجھے اب مکمل روشنی کی صورت اختیار کرتے دکھائی دے رہی ہے وہ اس لیئے کہ جب ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اپنی سوچ بدلتا ہے تو پھر تبدیلی کی راہ کی رکاوٹیں خود بخود ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور یاد رکھیں نوجوان یا خواب غفلت میں رہتا ہے مگر جب بیدار ہوتا ہے تو یہ نوجوان زاتی مفادات کو اپنی ترجیحات میں priority نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس اجتماعی مفادات کو اپنی ترجیحات میں اولین مقام پر رکھتا ہے اور یہی سب کچھ اب جھنگ میں بھی ہونے چلا ہے
ضلع جھنگ کے ایک سابق بزرگ سیاستدان جو چیئرمین ضلع کونسل بھی رہے ناشتے کی میز پر جب یہ سب کچھ کہے جا رہے تھے تو سامنے میز پر ان کے سامنے موجود ناچیز کے چہرے پر تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا اس بزرگ سیاستدان سے ناچیز کی ملاقات ان کے فارم ہاؤس پر ہوئی تھی یہ ان دنوں سیاست کو بھی خیر آباد کہہ چکے تھے اور سیاسی گفتگو سے کوسوں دور بھاگتے مگر آج خلاف توقع غیر معمولی حد تک optimistic تھے اور یہی سب کچھ ناچیز کے لیئے خلاف توقع تھا
جھنگ کے علاقے حویلی بہادر شاہ میں تیزی سے مقبول ہوتے نوجوانوں کے سیاسی گروپ مخدوم خضر حیات شاہ گروپ کا تذکرہ کرتے اس بزرگ سیاستدان کے چہرے کے تغیرات میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی تھی اور یہی ناچیز کے لیئے حیرت انگیز امر تھا اس بزرگ سیاستدان سے گفتگو تو ختم ہو گئی مگر حویلی بہادر شاہ کے مخدوم خضر حیات گروپ کے بارے گفتگو کے دوران ضلع جھنگ کے سابق چیئرمین ضلع کونسل کے چہرے پر آنے والے تغیرات نے نوجوانوں کے اس سیاسی گروپ کے بارے جاننے پر مجبور کر دیا
یہ گروپ ضلع جھنگ کے معروف قانون دان اور سابق چیئرمین مارکیٹ کمیٹی مخدوم خضر حیات شاہ کی یاد میں قائم کیا گیا تھا مخدوم خضر حیات شاہ ضلع جھنگ کی ان شخصیات میں شامل تھے جو ہمیشہ طبقاتی جنگ کے خلاف رہے یہ ہمیشہ جاگیرداروں کے خلاف سامنے آئے حویلی بہادر شاہ کا علاقہ ہمیشہ سے چند مخصوص گھرانوں کے گرد گھومتا رہا ہے کہ علاقہ روایتی سیاست کے حوالے سے بھی خاصا سازگار رہا ہے مگر اس علاقہ سے اب روایتی سیاست دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے مخدوم فواد رضا جیسے لندن سے معاشیات میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کی زیر قیادت اور مخدوم عون عباس شاہ جیسے ٹیکسٹائل انجینیر اور مخدوم فضل عباس جیسے اعلی تعلیم یافتہ اور زیرک نوجوانوں کی زیر قیادت یہ گروپ کیوں جھنگ میں سرایت اختیار کرتا جا رہا ہے اس کے لیئے ہمیں یہ گروپ کیوں جھنگ کے روایتی سیاستدانون کے لیئے خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا ہے کیوں عوام اس گروپ میں مسلسل شامل ہوتے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیئے ہمیں تھوڑا سا پس منظر میں جانا ہوگا حویلی بہادر شاہ کے روایتی جاگیردار اقتدار کے ساتھ منسلک رہے مگر حویلی بہادر شاہ کے لیئے کوئی بھی میگا پراجیکٹس لینے میں ناکام رہے مگر یہ نوجوان ٹراما سنٹر جیسا بڑا منصوبہ حویلی بہادر شاہ کے لیئے لے آئے
یہ نوجوان اعلی تعلیم یافتہ تھے یہ بین الاقوامی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل تھے یہ بڑی تنخواہیں لے سکتے تھے مگر یہ نوجوان حویلی بہادر شاہ میں اپنی زمینوں کو رفاعی کاموں کے لیئے وقف کرنے آگئے
یہ قبضہ گروپوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں اور طبقاتی تفریق کے حامیوں کے خلاف بھی یہ یوتھ پارلیمنٹ کے سابق وزیر اطلاعات مخدوم یاور حیات شاہ جیسے زیرک افراد بھی اپنے پس منظر میں رکھتے ہیں یہ سرایت کرتے جا رہے ہیں اور اسی وجہ سے گزشتہ عام انتخابات میں محترمہ صائمہ اختر بھروانہ امیر عباس خان مخدوم فیصل صالح حیات امیر عباس خان جیسے سیاستدان مخدوم خضر حیات گروپ کی یاترا کرتے دکھائی دیئے اور یقین غالب ہے کہ جس طرح مخدوم خضر حیات گروپ کے یہ نوجوان عام عوام میں سرایت کرے جا رہے ہیں یہ آئندہ عام انتخابات میں NA 116 میں باالخصوص اور ضلع جھنگ میں بالعموم ایک بڑے اپ سیٹ کا نقطہ آغاز ہے اور نقطہ آغاز صرف آغاذ تک محدود نہیں رہتا یہ بہت دور تک جاتا ہے اور یہ نوجوان صرف deliver ہی کرتے جا رہے ہیں اور جو deliver ہی کرتا جائے وہ بہت خطرناک بنتا جاتا ہے اور اس زیرک اور دور اندیش سیاستدان نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ حویلی بہادر شاہ کے تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل مخدوم خضر حیات گروپ اب برج الٹنے جاریا ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ